ٹانک وائن کا استعمال
مرزاقادیانی اپنے چہیتے مرید حکیم محمدحسین کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’محبی اخویم محمد حسین سلمہ اﷲ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خریدیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلومرکی دکان سے خریدیں۔ مگر ٹانک وائن چاہئے اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔ والسلام!‘‘ (خطوط امام بنام غلام ص۵)
سودائے مرزا کے حاشیہ پر حکیم محمد علی پرنسپل طبیہ کالج امرتسر لکھتے ہیں۔ ’’ٹانک وائن کی حقیقت لاہور میں پلومر کی دوکان سے ڈاکٹر عزیز احمد صاحب کی معرفت معلوم کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب جواباً تحریر فرماتے ہیں۔ حسب ارشاد پلومر کی دوکان سے دریافت کیاگیا۔ جواب حسب ذیل ملا۔ ’’ٹانک وائن ایک قسم کی طاقت ور اور نشہ دینے والی شراب ہے جو ولایت سے بند بوتلوں میں آتی ہے۔ اس کی قیمت ساڑھے پانچ روپے ہے۔‘‘ ۲۱؍دسمبر ۱۹۳۲ء
(سودائے مرزا ص۲۹ حاشیہ)
مرزاقادیانی بحیثیت صاحب کشف
مرض مراق کے دماغ پر مسلط ہو جانے کے بعد مرزاقادیانی کے دل ودماغ کے سوتے سے الہامات کا سیل رواں پھوٹ پڑا اور اعلانات واشتہارات کے ذریعہ اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ جس کا اثر یہ نکلا کہ دور دور سے لوگ قادیان آنے لگے۔ مرزاقادیانی تقدس کا روپ دھارے اپنے بیت الفکر نامی کمرے میں لیٹے رہتے اور الہامات کی بارش ہوتی رہتی تھی اور جب الہام کی غنودگی دور ہوتی تو فوراً اسے نوٹ بک میں درج کر لیا جاتا تھا۔
(سیرت المہدی ج۱ ص۲۰، روایت نمبر۲۲)
ایک ہندو لڑکا بحیثیت کاتب وحی
چونکہ ساون کی جھڑی کی طرح الہامات کا ایک غیر منقطع سلسلہ جاری تھا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ انہیں ضبط تحریر میں لانے کے لئے ایک مستقل کاتب رکھا جائے۔ چنانچہ اس مقدس کام کی انجام دہی کے لئے ایک ہندو لڑکے کا انتخاب عمل میں آیا۔ خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’ان دنوں ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جونا گری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا۔ بطور روزنامہ نویس نوکر رکھا گیا اور بعض امور غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے اور پھر شام لال مذکور کے اس پر دستخط کرائے جاتے تھے۔‘‘
(البشریٰ ج۱ ص۱۰)