ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
مجھ کو جانے نہیں دیتے جب جانے کا ارادہ کرتا ہوں راستہ بند نظر آتا ہے اور تھیلی بھی نہیں لیتے یہ ان بزرگ کا ظلم تھا غرض یہ نہ جانے دیتے ہیں اور نہ اپنی تھیلی واپس لیتے ہیں یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے لوگوں نے بزرگ سے عرض کیا کہ آپ اپنی تھیلی لے لیں فرمایا کہ یہ تھیلی اب میری نہیں رہی اس کی ہوگئی وجہ یہ کہ جس وقت یہ میرے ہاتھ سے لے کر بھاگا اسی وقت مجھ کو یہ خیال ہوا کہ ایک مسلمان میرے سبب گہنگار ہوا اور دوزخ میں جا ئےگا اس لئے میں اسی وقت وہ تھیلی اس کو ہبہ کردی اللہ اکبر ان حضرات کا بڑا ظرف ہوتا ہے یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ ایک مسلمان ایک لمحہ اور ایک منٹ کے لئے بھی خدا کا گہنگار رہے اور کل مال کا چلا جانا اور دے دینا گوارا کرلیا اور یہ ہبہ اصطلاحی تو نہ تھا کیونکہ اس میں دوسرے کا قبول شرط ہے مگر اپنی نیت سے اس کو بری الزمہ کردینے کو مجازا ہبہ فرمادیا پھر فرمایا کہ یہ حکایت بیان کرنے میں تو بہت سہل ہے مگر کوئی کر بھی سکتا ہے ؟ بس وہی کر سکتا ہے جس جے دل میں کوئی اور چیز ہو اس چیز کے ہوتے ہوئے دوعالم بھی اس کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے حضرت غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں شاہ سنجر نے لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ ملک سنجر کا کچہ حصٰہ خانقاہ کے نام کردوں تاکہ اہل خانقاہ کو اور آپ کو کوئی تلکیف نہ رہے آپ نے اس کے جواب میں یہ لکھ کر بھیجا - چوں چتر سنجری تجسم سیاہ با د دردل اگر بود ہوس ملک سنجرم زانگہ کہ یاقتم خبر از ملک نیم شب من ملک نیمر وز بیک جو نمی خرم ( اگر میرے دل میں سنجر کی ہوس ہو تو جس طرح سنجر کا چتر سیا ہ ہے - میرا نصیب بھی سیاہ ہو - اور جس وقت سے ملک نیم شب ( یعنی عبادت نیم شب ) کی مجھے خبر ہوتی ہے ، میں تو ملک نیم روز کو ایک جؤ کے بدلہ میں بھی نہ خریدوں گا -) پھر فرمایاکہ حضرت شاہ صاحب کی عادت کا منشاء ظاہرا تو بھولا پن پے مگر واقع میں دوسری وجہ پے یعنی متاع دنیا سے استغناء اور قلب کا عدم تلعق ورنہ ان کی ذکاوت مشہور ہے - حکایت حضرت مولانا شاہ محمد یعقوب صاحب دھلوی کی امور دینیہ میں