ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
کون منع کرتا ہے ہاں صیحح طریقہ بتلایا جاتا ہے بیان اس کا یہ ہے کہ مقصود تو ثواب ہے اور ثواب موقوف سے خلوص پر اور رسم کے اتباع اور تفاخر میں خلوص کہاں پس منع کرنے کا حاصل یہی ہے اور خلوص کی حالت میں بھی ایک صورت کو دوسری صورت پر ترجیح ہے بیان اس کا یہ ثواب کھانے ۔ کپڑے ۔ نقد سب کا پہنچتا ہے اب اآگے دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ مخفی طریق سے اہل حاجت کو پہنچایا جائے خدمت کردیجائے - دوسری صورت یہ ہے کہ کھانا پکایاجائے اور لوگوں کو کھلایا جائے تو اس دوسری صورت سے پہلی صورت افضل ہے جبکہ دوسری صورت میں بھی خلوص پوا اور اگر خلوص نہ ہوریا ء تفاخر ہی ہو پھر تو ظاہر ہے کہ دوسری صورت بالکل ہی لغو اور فضول ہے صرف بھی ہوا اور میت کو ثواب نہ پہنچا تو کیا اس کو منع نہ کیاجائے اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں اور آجکل یہی غالب عادت ہے عام طور پر یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر کچھ نہ کیا تو لوگ کہیں گے میاں فلاں کے ورثہ نے کچھ بھی نہ کیا اسی وجہ سے مخفی طریق سے صرف کرنے کو جی قبول نہیں کرتا صرف بھی ہوا اور کسی کو معلوم بھی نہ ہوا تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ ایصال ثواب کیسے ہوا - اور اگر یہ ریاء کی نیت نہیں بکلہ خلؤص ہے تب بھی مشورہ یہی ہے کہ مخفی طریق سے اہل حاجت اور ضرورت مند محتاج لوگوں کی امداد کردیجائے اگر پانچ سیر غلہ پکا کر مستحقین کو کھلانا ہے تو اگر وہ کسی کو بدون پکائے دئے دے دیا جائے تو یہ زیادہ اچھا ہے اس میں مساکین کا زیادہ نفع ہے اور خلوص نیت کے بعد ایک بات اوربھی ہے جس کا لحاظ خصوصیت کے ساتھ اہل اثر کو زیادہ رکھنا چاہئے وہ یہ کہ ایک شخص تو سمجھدار ہے اس نے اپنی نیت کو درست کر لیا اور ریا ء اور تخافر کی نیت سے عمل نہیں کیا مگر دوسرے جو اس سے استدلال کریں گے تو سب کی نیت میں خلوص نہی ہو تا تو ایسے شخص کو وہ طریق دیکھ کر یہ بات ہاتھ آئے گی کہ فلاں نے بھی تو ایسا کیا تھا اگر ہم بھی کریں توحرج کیا ہے تو مخلص کے لئے سبب ( گناہ کا ) ہوگیا اس لئے ایہام سے بچنا چاہئے - ا ن سب باتوں کو دیکھ لیا جائے اور اکثر بدعات اسی طرح جاری ہوئیں اس لئے بہتر طریق وہی ہے کہ مخفی طریق پر خدمت کردیجائے کہ ان میں ان مفاسد کی گجنائش ہی نہیں - مساجد میں اشتہارات چسپاں کرنے کا حکم