ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
حاملان عرش کانپ اٹھتے ہیں اگر تم نے عنقریب توبہ نہ کی تو کوئی وہاں نازل ہوگا پھر انھوںنے ایسی فرمائیش نہیں کی دوسراواقعہ حضرت مولانا ہی کا ہے جلال آباد کے ایک اخانصاحب حضرت کے مہمان ہوئے آدھی رات کو پلنگ پر پڑی ہوئے کروٹیں بدل رہے تھے مولانا بڑے ذہین تھے سمجھ گے کہ غالبا حقے کے عادی ہیں مولانا اسی وقت محلہ سے حقہ مانگ کرلائے اور بھر کر چار پائی کے برابرمیں لا کر رکھ کر فرمایا کہ میںپیتا نیہں لئے بھرنا نہیں آتا دیکھ لیجئے کسی چیز کی کمی پیشی ہوتو ٹھیک کردوں خان صاحب بیچارے پلنگ سے اتر کر الگ ہوگئے بڑی عزر معزرت کی فرمایا کہ تم مہمان ہو تمہارا حق ہے اس میں شرمندگی اور محجوب ہونیکی کونسی بات ہے ان خان صاحب کے ساتھ ایک بازاری عورت تھی بے نکاحی اور یہ پہلے سے علماء کے معتقد نہ تھے یہ کہا کرتے تھے کہ سب کو دیکھ لیا ہے صبح ہی کو حضرت مولانا مرید ہوگئے اور اس عورت کو بھی مرید کروایا اور نکاح پڑھوایا تو حضرت مولانا اس قدر منکسر المزاج تھے ۤـ کہ اپنے مہمانوں تک کا حقہ بھرتے تھے بھلا باپ کا حقہ بھرنا تو کیسے چھوڑ سکتے تھے اور سچ تو یہ کہ بڑا بننے میں کیا رکھا ہے بلکہ بعد تجربہ دین کے لئے تومضر ہے ہیَِ ، یہ بڑا بننا دنیا میں بھی مصائب کا نشانہ بناتا ہے مولانا فرماتے ہیں ـ خشمہا ؤچشمہا در شکہا، بر سرت ریز وچوآپ ازمتکہا (اگر بڑا بنوگے تو لوگوں کے غصے اور نگاہیں اور رشک وحسد تجھ پر ایسا پڑیں گے جیسے مشک سے پانی گرتا ہے ـ 12 ) غرض ضرورت محبت اور خلوص کی بڑئی کی ضرورت نہیں ایک مرتبہ ایک گاؤں کا شخص مجھ سے بیعت تھا اکثر میرے پاس آیا کرتا تھا ایک دن کہنے لگا کہ ہمارے گاؤں میں ایک فقیر آیا کرتا ہے اگر کہو تو اس کا طالب ہوجاؤں(یہ ایک صطلاح ہے گاؤں والوں کی مرید کے بعد ایک درجہ نکالا ہے طالب کا ) میں نے اسکو غصہ کے لہجئے میں ڈانٹا اس لئے کہ وہ فقیر شریعت کا پابند نہ تھا - ایک عرصہ کے بعد میں نے اس شخص سے مزاحا پوچھا کہ اب بھی کسی کا طالب بنے گا محبت بھرے لہجے میں سادگی سے کہتا ہے کہ بس اب تو تیراہی پلہ ( دامن ) پکڑ لیا مجھے اس وقت اسکا یہ کہنا بہت ہی پیارا معلوم ہوا اوریہ الفاظ کئی مرتبہ اس کی زبان سے کہلوائے ہر مرتبہ ایک نیا لطف آیا ـ محبت میں کیسے ہی