ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
حضرت ناصح جو آئیں دیدہ دل فرش راہ کوئی ہم یہ سمجھادے کہ سمجھائیں گے کیا جب مولانا کو دہ تحریر دکھلائی گئی تو مولانا نے جواب کیساتھ اسی غزل کا یہ شعر لکھا بے نیازی حد سے گزری بندہ پر درکب تلک ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائینگے کیا پھر فرمایا کہ پہلے مجھ کو مناظرہ سے بہت ہی شوق تھا ویسی ہی اب نفرت ہے اس زمانہ شوق میں ایک عیسائی لکچرار دیوبند میں آیا کرتا تھا میں اس وقت مدرسہ میں پڑھاتا تھا ایک مرتبہ وہ آکر مدرسہ کے قریب تقریر کرنے لگا - طلبہ کا اور اہل قصبہ کا مجمع ہوگیا وہ عیسائی کہٹرا ہوا اور ہاتھ میں انجیل لیکر حاضرین کو دکھا کر پوچھا کہ یہ کیا - مقصود یہ تھا کہ اگر یہ جواب ملا کہ یہ انجیل ہے تو یہ چونکہ مسلمان انجیل کا مانتے ہیں تو ان پر حجت ہو جائیگی - اب اس پر مستقل گفتگو ہوگی کہ مجیب کہے گا کہ یہ منسوخ ہے وہ کہے گا غیر منسوخ ہے ابھی جواب نہیں دیا گیا تھا کہ حکیم مشتاق احمد صاحب رکن مدرسہ آگئے اور طلبہ سے کہا کہ تم ہٹو یہ تمہارا کام نہیں ایسے جاہلوں سے مناظرہ کرنا ہمارا کام ہے - اس کے بعد اس سے فرمایا کہ میاں میں تمہارا جواب دوں گا - پوچھو کیا پوچھتے ہو اس نے بڑے زور سے کہا کہ یہ میرے ہاتھ میں کیا ہے وہی انجیل ہاتھ میں لے رہا تھا انہوں نے فرمایاکہ یہ کہ کدو ؛ اس نے اس پر برہم ہوکر تم بڑے گستاخ ہو فرمایا گستاخ کی کون سی بات ہے ہماری تو یہ ہی سمجھ میں آیا تم سے کہہ دیا اس کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ تحریف کے بعد یہ کتاب اللہ نہیں جیسے کدو کتاب اللہ نہیں تو آجکل مناظروں میں اس قسم کے سوال اور جواب ہوتے ہیں اب صورت میں سوائے تضبیع اوقات کے اور کچھ نہیں ہوتس جب تک مخاطب میں فہم نہ ہو گفتگو کرنا لا حاصل ہے اور یہ مناظرہ ہے جو اکثر فضول ہوتا ہے میں تو مسائل کے جواب میں بھی مسائل کی حثیت کے موافق جواب دیتا ہوں گو اس سوال کا جواب نہ ہو چنانچہ ایک بار ایک صاحب نے مجھ سے مسلئہ پوچھا تھا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ایک بھتجا ایک بھتیجی چھوڑے میراث کا کیا حکم ہے میں نے جواب دیا کہ بھتیجا میراث پائیگا - بھتیجی کو کچھ نہ ملیگا اس پر اس نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ وہ پٹواری تھے میں نے کہا کہ بستہ پٹواری گیر کا تو طاق میں رکھو اور طالب علمی شروع کرو تین برس کے بعد اس سمجھنے کی قابلیت پیدا ہوگی اس کی کیا وجہ اب بتلایئے ایسے بد فہم اور بد عقل کا بجز