ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
وقت ضائع کرتے ہو زبان میں مناسبت پیدا کرنے کے لئے تو صرف چھ ماہ کافی ہیں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال رکھ لو یہ دس برس کیوں کالجوں اور اسکولوں میں دماغ مارتے ہو تو پھر قران شریف کے واسطے استاد اور وقت کی ضرورت کیوں نہیں - اس میں اور اس میں فرق کی کیا وجہ ہے مشاہدہ شاہد ہے قرآن کا تر جمہ گو اردو ہی میں ہو خود دیکھنا اور کسی استاد سے سبقا سبقا نہ پڑھنا بجا ئے ہدایت کے سبب گمراہی کا ہوجاتا ہے دیکھئے اردو میں تو اقلیدس بھی ہے اس کی شکلوں وغیرہ بدون اس کے ماہر استاد کے کیوں نہیں سمجھ لیا جاتا یقینی بات ہے کہ بدون استاد اور ماہر فن کے تو ہمیشہ غلطیاں ہی کرے گا جیسے ایک شخص اس شعر کو لفظی تر جمہ دیکھ کر اجتہاد وبگہار تھا - دوست آن باشد کہ گیر دوست دوست در پر یشان حالی درد ماند گی ( دوست وہی ہے جو دوست کی پریشانی حالی اور عاجز ہونے کے وقت دستگیری اور امداد کرے ) اس شخص کو ایک جگہ دوست کسی دوسرے شخص سے لڑتا ہوا ملا جو بقدر قدرت انتقام بھی لے رہا تھا یہ جو پہنچے انھوں نے جاکر دوست کے ٓ----------------- دونوں ہاتھ پکڑ لئے بس احمق کی بدولت اس غریب کی خوب کافی مرمت ہوئی اور خوب زود کوب کیا گیا بعد میں اس دوست نے ردیافت کیا کہ جناب یہ کیا حرکت تھی تو فرمایا کہ شیخ سعدی جیسا تجربہ کار بزرگ اور دانشمند فرماگیا ہے کہ دوست آن باشد کہ گیرد دوست در پریشان حالی درد ماندگی غنیمت ہے دست کا تر جمہ ہاتھ ہی سمجھا کہیں دیکھ لیا ہوگا ورنہ دوست کا پاخانہ ہی اٹھا کر لایا کرتا بس یہی حالت آج کل کے مدعیوں کی ہے جو قرآن مجید کا ترجمہ دیکھ کر خود اجتہاد کرتے ہیں وہ اجتہاد اس شعر کے سمجھنے والے سے کم نہیں ایسوں ہی کی بات بدولت یہ دین کی گت بنی ہے ان کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے ایک بڑھیا کے گھر میں شاہی باز جاگر المبی چونچ خم کھائے ہوئے اور بڑے بڑے نیچے دیکھ کر کہنے لگی ہائے یہ کس طرح کھاتا ہوگا کیسے چلتا ہوگا چونچ اور پنجے کاٹ ڈالے بیچارہ اپاہچ ہو کر رہ گیا تو جس طرح اس بڑھیا بدفہم بد عقل نے اس باز کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کی تھی ایسی ہی ان لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی اسلام کے ساتھ ہے اگر ایسے ہی مجتھد اورعقلاء ہوں گے تو بس دین