یہودیوں کو جلا وطن کیا گیا تو اس موقع پران لوگوں نے حضور ﷺسے عرض کیا کہ ہم اپنے بچوں کو عیسائیت پر نہیں رہنے دیں گےاور ان کے ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۱؎ تب یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا کہ تم کو جبر کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر وہ اسلام کو قبول کرنا چاہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اُن کی مرضی ہے، اب وہ بڑے ہوچکے ہیں۔
اور بعض مفسرین نےلکھا ہے کہ جب خیبر کے یہود جلاوطن کیے گئے تو اسی طرح کچھ لوگ اپنے بچوں کو یہودیوں کے حوالے کرچکے تھے۔ اس موقع پر ان لوگوں نے اپنے بچوں کو اسلام میں لانا چاہا، یہ مسئلہ بھی حضورﷺکے سامنے آیا تو آپﷺپر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ اُن کو سمجھاؤ اگر وہ اپنی خوشی سے اسلام کو قبول کرتے ہیں تو اُن کی مرضی ہے اوراگر یہودی یا عیسائی ہی رہنا چاہتے ہیں تو اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دو۔
بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی جب ایک انصاری صحابی (جن کا نام حصینی تھا)کے دو لڑکے عیسائی بنادیے گئےتھے،وہ اس طرح سےکہ شام کے نصرانی تاجروں نےجن کا زیتون کا کاروبار تھاان کو نصرانیت کی دعوت دی،تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ اور ان کے ساتھ جانے کا ارادہ کرلیاتو ان کی والد نے منع کیا اور ان کو زبردستی روکنے لگےاور آپﷺسے درخواست کی کہ ان کو روکیں آپ ﷺ فرمایا کہ انہیں سمجھاؤاگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو ٹھیک ہے اور اگر اسلام قبول نہیں کرتے ہیں تو انہیں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس بات کو گوارا کروں کہ میرے جسم کا کچھ حصہ جہنم میں جائے (کیونکہ حضور ﷺبتاچکے تھے کہ جو
-----------------------------------------------------
۱؎: تفسیر ابن کثیر:۱ / ۶۸۲)