لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ دین میں جبر نہیں۔
تِلْكَ آيَاتُ اللهِ نَتْلُوْهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ۱؎
ان آیتوں میں حضور ﷺکی رسالت کا بیان ہے۔اور اس کے بعد والی آیت میں توحید کا بیان ہے۔ توحید اور رسالت واضح ہوگئیں اور حق تعالیٰ شانہ، نے دونوں کو دلیلوں کے ساتھ بتادیا اور سمجھادیا تو جس کے اندر ذرّہ برابر بھی فطری صلاحیت باقی ہے اور اُس کے دل کو کجی نے نہیں گھیرا ہے وہ ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر وہ حضور ﷺکی رسالت کو سمجھنا چاہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھنا چاہے توسمجھ سکتا ہے، حضور ﷺکے ذریعے سے توحید اور رسالت کے مضامین کو اتنا واضح کردیا گیا ہے کہ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی توحید، صفات، قدرت، کبریائی و عظمت اور کلام کو سمجھنے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی، اور حضور ﷺکی نبوت پر جو دلیلیں ہیں اور آپ ﷺکو جن نشانیوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے وہ بھی اتنی واضح ہیں کہ رسول پاک ﷺکی رسالت بھی چھپی ہوئی نہیں رہتی۔ جب رسالت واضح کردی گئی کہ یہ ہمارے پیغمبر ہیں اور یقینا ہیں، اب ان کو جھٹلانے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ کسی بھی اعتبار سے حضور ﷺکو دلیل سے نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ حضور ﷺکی رسالت پر اتنے دلائل جمع کیے گئے ہیں کہ دلیل کے اعتبار سے اب کوئی گنجائش نہیں رہی ہے کہ اُس کی تکذیب کی جاسکے۔ اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور بڑائی پر اتنی بات واضح کردی گئی،جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا،اللہ تعالیٰ نے خود ہماری عقلوں میں پہلے سے اتنی روشنی اور ہمارے دلوں میں یہ استعداد رکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھ سکیں۔ اس لیے جب توحید اور رسالت واضح ہوگئے تو اب جو مانے گا وہ کامیابی کے راستے پرچلے گا اور جو نہیں مانے گا وہ اپنی جہنم خود بنائے
-----------------------------------------------------
۱؎: البقرۃ : 252 ۔