حضور ﷺ کا مرتبہ اور عظمت اللہ تعالیٰ ہی کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سب سے مقدم ہیں۔ بقیہ اس مضمون میں بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوگیاہے کہ علماء نے یہ بات کیسے لکھ دی؟ تمام مستند اور بڑے بڑے علماء یہ لکھتے ہیں کہ روضۂ مبارک میں جسم اطہر بالاتفاق عرش سے افضل ہے۔ جسم مبارک تو افضل ہے ہی مگر زمین کا وہ حصہ جو جسم اطہر کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ بھی عرش سے افضل ہے۔ اس پر لوگ کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
وہ ایسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا مفہوم یہ سمجھا گیاکہ وہ عرش پر مستویٰ ہیں در اصل سمجھنے کی چیزیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش یا کرسی پر بیٹھے ہوئے نہیں ہیں کیونکہ وہ جسم والے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف عرش و کرسی کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے بیت اللہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ وہاں سے اللہ تعالیٰ مخلوقات پر تصرفات فرماتے ہیں، وہاں سے اللہ تعالیٰ کا حکم مخلوق کے علم میں آیا، وہاں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ ہورہا ہے، سدرۃ المنتہی پر مخلوق ختم ہورہی ہے، اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہے، انسان کے علم کو اس کے آگے کا ادرک نہیں ہے،لیکن نبی ﷺ بنفسِ نفیس روضۂ اقدس میں موجود ہیں اور روضۂ اقدس کی زمین آپ کے جسمِ اطہر سے مس ہو رہی ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے علماء کرام ایسی بات فرماتے ہیں۔
وَلَا يَئُودُهٗ حِفْظُهُمَا
اللہ تبارک وتعالیٰ کو آسمان و زمین کی حفاظت کوئی گراں محسوس نہیں ہوتی۔
اور آسمان و زمین کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی گراں نہیں ہے۔
وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
اور وہ علی یعنی بہت عالیشان ہے،تمام صفاتِ نقص سے وہ برتر اور بزرگ ہے، بڑی شان والے ہیں۔