آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جائے گی تو آسمان ہی کی طرف کی جائے گی لیکن یوں نہیں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہی مقید ہیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ ساتویں زمین پر رَسّی چھوڑو گے تو وہ سیدھی اللہ تعالیٰ کے پاس جائے گی۔۱؎ یہ بھی تو حدیث ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کو کسی جہت کے ساتھ مخصوص نہیں کریں گے۔ بقیہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پوری مخلوق کے اوپر کرسی بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کرسی کے اوپر عرش بنایا ہے اور عرش کے اوپر کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت ہے۔ آدمی کی عقل عرش تک کس درجے میں سمجھ سکتی ہے۔ عرش کے بعد کیا ہےعماء(خفا) ہے "كَانَ فِيْ عَمَاء"۔۲؎ اس کے اوپر صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ آدمی وہاں تک سمجھ سکتا ہے لیکن یوں نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ عرش پر ہیں۔
'' الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى ''
اسی وجہ سے ''الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى'' متشابہات میں سے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رحمن عرش پر بیٹھا ہوا ہے۔ تمام اہل السنۃ والجماعۃ کہتے ہیں کہ یہ متشابہات میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کی مراد کو زیادہ جانتے ہیں۔ ہم یوں کہیں گے کہ استویٰ معلوم ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ عرش پر مستوی ہیں۔ مگر کیفیت مجہول ہے۔ کیسے بیٹھے ہوئے ہیں، ہمیں یہ نہیں معلوم ہے ،کیونکہ اگر بیٹھ گئے تو اُن کا محدود ہونا لازم آجائے گا اور وہ اللہ ہی نہیں ہوتا جو محدود ہو۔ اللہ تعالیٰ ذی جسم نہیں ہیں جبکہ عرش جسم والی چیز ہے، کرسی جسم والی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہیں کیونکہ جسم میں بھی نقص اور عیب ہے۔
-----------------------------------------------------
۱؎:سنن ترمذی:۳۲۹۸۔ ۲؎:سننِ ترمذی:۳۱۰۹۔