تعالیٰ کے برابر تو نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کو جس اعتبار سے بنایا ہے وہ مضبوط اور طاقتور ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ، نے اپنے بندوں سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ میں ایسی صفات والاہوں اور میرا یہ نظام ہے اور یہ میری کرسی ہے اور کرسی کا یہ نظام ہے، آسمان و زمین میرے قبضے میں ہیں اور میں ایسی طاقت والا، قدرت والا ہوں کہ میرے سامنے کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ جب سے بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود بنایا اُس کے چہرے پر خراش پڑگئی۔۱؎اس سے اُس فرشتے کی کیا مناسبت ہے، یہ حضرت علیؓ ہی جانتے ہیں۔ اور حضرت علیؓ کے علوم بڑے عجیب و غریب تھے۔
حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ آپ کے علوم سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید حضور ﷺنے قرآن کے علاوہ علم کا کچھ حصہ آپ کو ضرور دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا:
لَا...إِلاَّ فَهْمَاً يُعطِيهُ اللّٰهُ رَجُلاً فِي الْقُرْآنِ''۲؎
فرمایا کہ اس سے زیادہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک فہم ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ عطا فرماتے ہیں ۔
جب آدمی اپنی روحانیت میں لطافت پیدا کرتا ہے اورتعلق مع اللہ بڑھ جاتا ہے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے بنائے ہوئے حقائقِ کونیہ اُس آدمی پر کھل جاتے ہیں اور نظر آنے لگتے ہیں۔ حضرت امام باقر کے بارے میں یہ بات ملتی ہے کہ اُن کو عرش آسانی سے بیٹھے بیٹھے نظر آتا تھا۔ آسمانِ اوّل پر یہ نظر آرہا ہے، آسمانِ دوم پر یہ نظر آرہا ہے، عرش کے پاس یہ کچھ ہے، کرسی کے پاس یہ ہے۔ ان سب کی نوعیت کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ آدمی اس میدان میں
-----------------------------------------------------
۱؎: تفسیر مظہری:۱/ ۶۶۸۔ ۲؎:صحیح بخاری:۳۰۴۷۔