چیزیں تیار کروائیں۔ سمندر کے کنارے ڈھیر کا ڈھیر لگادیا اور اعلان ہوا کہ فلاں وقت کھانے کا ہے لہٰذا مخلوق جمع ہوجائے۔ ایک مچھلی سمندر سے برآمد ہوئی اور کہا کہ مجھے بھوک لگ رہی ہے، کھانا دے دیا جائے۔ کہا گیا کہ ٹھیک ہے، اس کو کھانا دے دیا جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جتنا کچھ تمام مخلوق کے لیے بنوایا تھا اُس مچھلی نے ایک ہی لقمے میں سب ہڑپ کر ڈالا۔ پھر اُس کے بعد کہا کہ اے سلیمان! میری بھوک ختم نہیں ہوئی۔ وہ حیرت میں پڑگئے کہ اے اللہ! یہ کیا ماجرا ہے، میں تو سمجھا تھا کہ یہ کھانا سب کو کافی ہوجائے گا، مگر یہ تو ایک مچھلی کو بھی بس نہیں ہوا۔ اس مچھلی نے کہا کہ اے سلیمان! آپ اسی پر عاجز ہوگئے، اللہ مجھے روزانہ ایسے تین لقمے دیتا ہے،۱؎اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے، انہوں نے مخلوق کو بنایا ہی ایسا ہے۔ کون کون سی مخلوق کہاں کہاں کس نوعیت کی ہے اور اس کی ربوبیت کا انتظام صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ ایسی مخلوق بھی بنائی ہے جنہیں کچھ کھانا پینا ہی نہیں ہے۔
جیسے کرسی کو تھامنے والے چار فرشتے ہیں اور ایک ایک فرشتہ آسمان اور زمین سے بڑا ہے، اُس کو بھوک ہی نہیں لگتی۔ اللہ تعالیٰ چاہیں تو مچھر اور چیونٹی کو بھی بھوک لگے اور اللہ تعالیٰ نہ چاہیں تو جبرئیل جیسے فرشتے اور عرش و کرسی کو تھامنے والے فرشتوں کو بھی بھوک نہ لگے۔ بھوک بنانا اور بھوک کو مٹانے کا انتظام کرنا بھی اُن کا کام ہے اور بھوک ہی نہ بنانا وہ بھی اُن کا کام ہے۔ ہم جتنا سوچیں گے حق تعالیٰ شانہ، کی قدرت کے عجیب وغریب نظارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک طرف چھوٹی سی چیونٹی کے اندر پورا نظام ہے اور اُس میں بھوک بھی ہے اور پیاس بھی ہے، خواہشات بھی ہیں اور دوسری طرف عرش و کرسی کو تھامے ہوئے فرشتوں کو نہ بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے، نہ اُن کو نیند آتی ہے، نہ اُن کو تھکان ہے وہ اللہ
-----------------------------------------------------
۱؎: نفحۃ العرب:۸۷ – ۸۸۔