تعالیٰ کی مخلوق اس سے زیادہ ہے۔ ان لوگوں نے اپنی دُور بینوں سے جنت کو نہیں دیکھا، جہنم کو نہیں دیکھا، انہوں نے کرسی اور عرش کا مشاہدہ نہیں کیا۔ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ ابھی اور کیا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے پوری مخلوق کو وجود دیا۔ وجود دینے کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے بنائی اور قیامِ ہستی دی یعنی جن چیزوں سے یہ تمام چیزیں بنی ہوئی ہیں ، انہیں یہ سب کچھ دیا۔ یہاں آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اگر وہ سوچنا چاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پوری مخلوق کو ''نہیں'' سے ''ہاں'' کیا۔جبکہ ایک شے بھی نہیں تھی۔تو اُس کی عقل اس مضمون کو نہیں پکڑسکتی۔
كَانَ اللہُ وَلَمْ يَكُنْ شَىْءٌ غَيْرُهُ ۱؎
اللہ تعالیٰ تھے اور اللہ کے ساتھ کوئی شے نہیں تھی، ایک ذرّہ بھی نہیں تھا۔
کائنات میں پائے جانے والے مادّے کے بارے میں ایک عقیدہ اچھی طرح سمجھ لیجئےکہ اہلِ اسلام اور اہلِ سائنس کے درمیان عقیدے کی بنیاد یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اہلِ سائنس پوری کائنات کے مٹیریل کو قدیم مانتے ہیں۔ زمین کیسے بنی؟ چاند کیسے بنا؟ ستارہ کیسے بنا؟ مریخ کیسے بنا؟ آسمان اور زمین کیسے بنے؟ یہ الگ چیز ہے۔ اس سے قطع نظر فلاسفۂ قدیم اور فلاسفۂ جدید ایٹموں اور ذرّات سے بنی کائنات کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ کائنات ہمیشہ سے ہے جبکہ اسلام پہلے دن سے یہ کہہ رہا ہے:
''کانَ اللہُ ولَمْ یَکُنْ مَعَہُ شَیئٌ''
کہ اللہ تعالی تھے اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی۔
-----------------------------------------------------
۱؎: صحیح البخاری:۳۱۹۱۔