اس لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور مت کرو۱؎۔ یہ تمہاری عقل کا میدان نہیں ہے کہ تم عقل کا گھوڑا اُس میں دوڑا سکو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہے ہی، مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفت کو بھی نہیں جان سکتی(حقیقتاً)۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اوّل ہیں۔ ہم بعد میں آئے ہیں لہٰذا ہمیں نہیں معلوم کہ پہلے سے کیا ہوتا ہے۔ ہم نہیں تھے، ہمیں پیدا کیا گیا، ہمیں نہیں معلوم کہ اوّل کیا ہوتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والی مخلوق حادث ہے، کسی نہ کسی وقت میں اُس کے لیے فناء ہے۔ سب کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ کسی مخلوق کے ساتھ بھی آخر تک کا معاملہ نہیں ہے، لہٰذا کوئی بھی اس کو نہیں سمجھ سکتا۔ حق تعالیٰ کی نہ ذات کی کنہ جانی جاسکتی ہے اور نہ صفات کی کنہ۔ البتہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت میں غور کرنے سے حقیقت تو معلوم نہیں ہوتی لیکن عظمت، بڑائی اور قدرت کی وجہ سے آدمی کے قلب پر تأثر آتا ہے، اس کی وجہ سے آدمی بندگی اختیار کرتا ہے۔ فرمایا کہ تَفَكَّرُوْا فِيْ الْخَلْقِ، وَلَا تَفَكَّرُوْا "فِيْ الخَالِقِ، فَإِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُوْنَ قَدْرَهٗ"۲؎ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات میں غور مت کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور کرو،کیونکہ تم میں اس کے اندازے کی قدرت نہیں۔
وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهٖ إِلَّا بِمَا شَاءَ
اور مخلوق نہیں احاطہ کرسکتی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں سے کسی کا، مگر اُتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ ہی نے بتادیا اپنی ذات و صفات کے بارے میں کہ میں کیسا ہوں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ '' مِنْ عِلْمِهٖ'' سے مراد معلومات ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی جو معلومات ہیں اُس کا کوئی بھی احاطہ نہیں کرسکتا مگر وہی جو اُس نے بتادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں سے جس کو جتنا علم دے دیا بس اُس کو اتنا ہی معلوم ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کو جتنا علم ہے اتنا کسی کو بھی
-----------------------------------------------------
۱؎:المعجم الاوسط:۶۳۱۹۔ ۲؎: کنز العمال:۵۷۰۶۔