کی شان کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم گندے قطرے سے بنے ہوئے ہیں اور پھر اس وقت ہمارے اندر ناپاک خون ہے۔ ایک قطرہ باہر آجائے تو وضو نہیں ٹھہرتا اور اگر یہی خون کا قطرہ پانی میں گرجائے تو پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ پیشاب اور غلاظت اندر بھرے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ چیزیں ناپاک نہیں ہیں، لیکن بساند ہے اور پھر ہمارے وجود کی حیثیت کیا ہے؟ فرمایا کہ پورے سمند میں سے ایک پانی کا قطرہ لیا جائے اور ایک قطرے میں لاکھوں جرثومے ہوتے ہیں، اُن لاکھوں جرثوموں میں سے ایک یہ کہے کہ سمندر میری وجہ سے قائم ہے یا یوں کہے کہ میری وجہ سے انسان کی زندگی قائم ہے کہ انسان مجھے پیتا ہے تو وہ زندہ ہے۔ انسان کہے گا کہ ایسے لاکھوں کروڑوں جرثومے میں پیشاب میں سے نکال دیتا ہوں۔ سمندر کے پانی کے مقابلے میں ایک قطرہ اور اُس ایک قطرے میں جو لاکھوں جرثومے پائے جاتے ہیں، اُن کی حیثیت نہیں کے برابر ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی جو مخلوقات آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اُن کے مقابلے میں میرے تنہا وجود کی حیثیت کیا ہے؟ انسان کی حقیقت ہی کیا ہے؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی حقیقت بار بار بتائی ہے؟ اور انسان پھر بھی تکبر کرتا ہے۔
فرمایا: ''فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ'' ۱؎
انسان دیکھے کہ اُس کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں دسیوں جگہ پر انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ ہم نے انسان کو کیسے پیدا کیا؟ اور تم غور و فکر کرو کہ تم کس چیز سے بنائے گئے۔
خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ، يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ۲؎
اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا جو نکلتا ہےپشت اور سینہ کے درمیان سے
-----------------------------------------------------
۱؎ : الطارق:۵۔ ۲؎ : الطارق:۶-۷۔