وجود بخشا، میں اور آپ موجود نہیں تھے،اللہ تعالیٰ نے ہمیں وجود بخشا۔پھر ہماری زندگی کی بقا اللہ تعالیٰ کے باقی رکھنے سے ہے، سننے، بولنے، دیکھنے، سوچنے اور محسوس کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کے باقی رکھنے سے ہے، جسم کے اندرونی نظام کی طاقتیں بھی اللہ تعالیٰ کے باقی رکھنے سے ہے۔ ذات بھی اللہ تعالیٰ سے باقی ہے، صفات بھی اللہ تعالیٰ سے باقی ہیں، اعضاء سے جو کام سرزد ہورہا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ سے باقی ہے اور اس کے اثرات بھی اللہ تعالیٰ سے باقی ہیں۔ آثار، افعال اور صفات یہ سب اللہ تعالیٰ سے باقی ہیں۔ یہ ایسا علم ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وجودِ حقیقی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہے۔یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ اور اُن کی صفات کے مقابلے میں مخلوق کو ملنے والے وجود کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
قیومیت کا مطلب یہ ہے کہ وجود دینا اور وجود دینے کے بعد اُس کو باقی رکھنا۔ جتنی موجود چیزیں ہیں اُن سب کو اللہ تعالیٰ نے وجود بخشا اور وجود دینے کے بعد اُن کو باقی رکھے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن سے غیرمتعلق نہیں ہیں۔ جیسے کمہار ایک برتن بناکر غیرمتعلق ہوجاتا ہے، جیسے فیکٹری میں چیزیں بننے کے بعد ہمارے ہاتھوں میں آجاتی ہیں، پھر فیکٹری والوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، فیکٹری والا ان چیزوں کا قیوم نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مخلوق کے قیوم ہیں یعنی مخلوق کو وجود عطا فرمایا اور وجود عطا فرمانے کے بعد مخلوق کی بقا کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اگر ایک لحظہ اور آن کے لیے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توجہ ہٹ جائے تو مخلوق ختم ہوجائیگی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت کیسی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا علم کیسا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارادہ کیسا ہے؟ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ربوبیت کیسی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی حاکمیّت کیسی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی رزَّاقیت کیسی ہے؟ آدمی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان تمام