اگر ہم اس مضمون کو تھوڑا سا سوچیں تو حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ حق تعالیٰ شانہ، قیوم ہیں ذرّے سے لے کر جبرئیل تک، ذرّے سے لے کر پہاڑ تک، مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، تمام آسمان کی مخلوق، تمام خشکی کی مخلوق، تمام سمندر کی مخلوق، چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق کو قائم رکھنے والے ہیں۔ ذرا مخلوق کے بارے میں سوچئے۔ جو مخلوق ہمارے علم میں ہے اُس کے مقابلے میں جو مخلوق ہمارے علم میں نہیں ہے اُس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ اُن تمام مخلوق کا وہ خالق ہے، ان کے وجود کا محافظ ہے، ان کی صفات کا محافظ ہے، ان کے افعال کا محافظ ہے، یہ سب قیوم میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ''حی'' ہیں، وہ اپنی ذات سے زندہ ہیں اور زندگی دینے والے ہیں۔ وہ ''قیوم'' ہیں، وہ اپنی ذات سے قائم ہیں اور سب کو قائم رکھنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ تصوف میں ہمارے والد صاحب کو بھی غیرمعمولی دسترس دی تھی۔ وصال کے بعد ہمارے بڑے بھائی صاحب نے والد صاحب کو خواب میں دیکھا۔ ہمارے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ وحدت الوجود کی بحث بہت زیادہ سنایا کرتے تھے۔ وصال کے چار پانچ دن بعد خواب میں نظر آئے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف اُنہیں کو خواب میں نظر آئے ہوں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہےکہ خواب میں جو بزرگ نظر آتے ہیں وہ بزرگ نہیں ہوتے، یہ قصہ دوسرا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا علم بعض مظاہر کے ذریعے عطا فرماتےہیں۔ والد صاحب نے خواب میں فرمایا کہ تم وحدت الوجود نہ کہاکروبلکہ قیوم کہا کرو، یہ دونوں ایک چیز ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مخلوقات کے وجود کے قیوم ہیں، تمام مخلوقات کی صفات کے قیوم ہیں، تمام مخلوقات کے افعال کے قیوم ہیں۔ انہوں نے سورج کو وجود دیا اور سورج کے نور کو بھی وجود دیا اورپھر اُس نور کی بقا بھی اللہ تبارک وتعالیٰ پر ہے۔ مجھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے