نزدیک یہ پڑھنا واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ سنت ہے۔ ۱؎ اگر آدمی آتے ہی کسی نماز میں مشغول ہوجائے جیسے ظہر کے وقت میں پہنچے اور ظہر کی سنتوں کی نیت باندھ لی، عصر کے وقت میں پہنچے اور عصر کی سنتوں کی نیت باندھ لی تو اُس میں تحیۃ المسجد داخل ہوجاتی ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی عبادت میں مشغول ہوجائے۔ اگر آدمی فوری طور پر کوئی عبادت نہیں کررہاہے تو تحیۃ المسجد پڑھے۔ لیکن اگر داخل ہوتے ہی نماز میں شامل ہوگیا تو تحیۃ المسجد اُسی میں داخل ہوجاتی ہے۔ جیسے جماعت کھڑی ہوچکی ہے، اب تحیۃ المسجد تھوڑاہی پڑھی جائے گی۔ غرض یہ کہ احناف کے نزدیک یہ سنت ہے۔
حضور ﷺ نے پوچھا:اے ابوذر! تم نے نماز پڑھی؟ میں نے کہا کہ نہیں پڑھی، فرمایا کہ نماز پڑھ لو۔ جب نماز سے فارغ ہوکر بیٹھے تو فرمایا تَعَوَّذْ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ ، پناہ مانگو شیاطین سے جو جنات و انسان میں سے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں؟ فرمایا کہ ہاں!۔ اس کے بعد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ نماز کے بارے میں کچھ فرمائیے۔ فرمایا: خَیْرُ مَوْضُوْعٍ، اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام کی چیزیں دی ہیں اُن میں سب سے بہترین چیز نماز ہی ہے۔ پھر کہا کہ روزے کے بارے میں کچھ فرمائیے۔ فرمایا کہ روزہ اللہ تعالیٰ کا ایسا فرض ہے جس پر عجیب جزا دی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے اُس پر مزید دینے کا وعدہ کیا ہے،پھر کہا کہ صدقہ کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔ فرمایا کہ صدقہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اَضْعَافٌ مُضَاعَفَۃٌ ، جتنا آدمی دے گا اُس میں بڑھوتری ہوتی ہی چلی جائے گی۔
-----------------------------------------------------
۱؎ : ردالمحتار:مطلب فی تحیۃ المسجد۔