ہوئے تو ان لوگوں کے صالح حلیے کو دیکھ کر کشتی والے نے ان تینوں سے کرایہ نہیں لیا جبکہ سب سے کرایہ لیا۔ اب خضر علیہ السلام نے سوراخ کردیا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جلال آگیا کہ یہ کیا ہے؟ آپ کو کم از کم دوسرے کی رعایت کرنی چاہیے تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ آپ ہمارے کام میں گڑ بڑ نہ کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں بھول گیا تھا۔ آگے چل کر حضرت خضر علیہ السلام نے اچھے خاصے نوجوان کے دو ٹکڑے کردیے،ظاھراً اُس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ کسی آدمی کو ناحق ماردینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام پھر دوبارہ غضبناک ہوگئے۔ آگے چلے تو بھوکے پیاسے تھے، کوئی کام نہیں ملا اور دیوار سیدھی کرنی شروع کردی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کم از کم پیسے لے کر دیوار سیدھی کرتے تو ہم کھانا کھاسکتے تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ یہ تین مرتبہ ہوگیا اور آپ ہمیشہ اعتراض بھی کرتے رہیں گے۔۱؎میری اور آپ کی مناسبت ہونے والی نہیں ہے۔ ان کاموں میں سے کسی بھی کام کا تعلق تدبیر سے نہیں بلکہ تکوین سے ہے۔ دنیا میں کوئی کام کیوں ہونا چاہیے؟ کس وجہ سے ہوتا ہے؟ اس کی کیا حکمتیں ہیں؟ یہ حکمتیں اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور اللہ تعالیٰ جن کو یہ کام لگادیتے ہیں وہ وہی کرتے ہیں، اپنے اختیار سے کوئی کام نہیں کرتے۔
اگر کسی اللہ والے کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ اہلِ تکوین میں سے ہے اور لوگ اُن کے پاس جاکر کہیں کہ میرا یہ کام بنادیں تو اہلِ تکوین اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے حتیٰ کہ اہلِ تکوین دُعا بھی نہیں کرتے ،کیونکہ اُن کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت و حکمت کے تحت کون سا کام ہونے والا ہے اور کون ساکام نہیں ہونے والا ہے۔
-----------------------------------------------------
۱؎: الکہف:۶۰تا۸۰۔