طرف سے علوم کے واردات، حقائق کے انکشافات کی وجہ سےبعض مرتبہ ایسے ہوتا ہے کہ آدمی اتنی حیرت میں پڑجاتا ہے کہ ہوش اُڑجاتے ہیں، وہ مجذوب ہوجاتا ہے۔ وہ نہ دنیا کا رہتا ہے اور نہ دین کا رہتا ہے(اسے کچھ ہوش نہیں ہوتا)۔ مجذوب دنیا کا اس لیے نہیں رہتا کہ اُسے کھانے پینے اور رہنے کا ہوش نہیں رہتا اور دین کا اس لیے نہیں رہتا کہ اُس کی عقل باقی نہیں رہتی ۔ جب اُس کی عقل باقی نہیں رہتی ہے تو پھر وہ کوئی کام نہیں کرسکتا، نماز اس سے معاف ہے، روزہ اُس سے معاف ہے، وہ کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط نہیں کرتا۔ مجذوب اللہ کا مقبول بندہ بن جاتا ہے مگر اُس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا جس کی وجہ سے اُس کے پاس نہ دنیا کا نفع ہوتا ہے اور نہ دین کا نفع ہوتا ہے۔
آپ لوگوں کو دیکھیں گے کہ مجذوبوں کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی زبان سے جو نکل گیا وہ ہوجائے گا حالانکہ جو مجذوب کی زبان سے نکل گیا وہ نہیں ہوتا بلکہ جو ہونے والا ہوتا ہے وہ مجذوب کی زبان سے نکلتا ہے۔ اگر وہ بولے تب بھی ہوگا اور نہ بولے تب بھی ہوگا۔ مجذوبوں کے پاس دین کا فائدہ اس لیے نہیں ہے کہ دین کا فائدہ تعلیم و تعلّم پر منحصر ہے۔ جب مجذوب خود ہی ہوش نہیں رکھتا تو وہ آپ کی کیا تربیت کرے گا۔ دنیا کا فائدہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے اعتبار سے بالکل خالی ہوچکا ہوتا ہے اور اس پر انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ مجاذیب کے پاس جانے سے منع کرتے ہیں۔ اور ان سے متعلق ایک بات یہ بھی ہے کہ اُن کی شان میں گستاخی اور بدتمیزی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ مقبولِ الٰہی ہوتے ہیں۔
یہ بہت باریک فرق ہے کہ کون مجذوب ہے اور کون مجنون ہے؟ کون ایسا ہے جو اللہ کی محبت میں دیوانہ ہوگیا ہے اور کون ایسا ہے جو جسمانی بیماری کی وجہ سے دیوانہ ہوگیا ہے، اس