ذاتِ گرامی نہ صرف ریاستِ آندھراپردیش بلکہ جنوبی ہند کی بیشتر ریاستوں اور شمالی ہند کےعلمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں ،اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار کمالات سے نوازا ہے آپ انتہائی ظریف الطبع سادہ مزاج نہایت ذکی و ذہین ، نکتہ آفریں ہونے کے ساتھ علم و عمل اور اخلاص کے پیکر ہیں نیز علمی فضل وکمال کے ساتھ وعظ و تبلیغ میں یکتائے روزگار ہیں، آپ کا آبائی وطن مغل گدہ ضلع محبوب نگر ہے،وہیں حفظ قرآن مجید کی تکمیل حافظ خلیل اللہ صاحب دامت برکاتہم کے یہاں فرمائی بعدازاں ابتدائی کتابوں کی تعلیم کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد،یو پی کا رخ کیا جہاں حضرت شاہ مولانا مسیح اللہ خان صاحب نوّراللہ مرقدہ کی زیر تربیت افتاء تک کی تعلیم مکمل فرمائی ،تعلیم ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی تعلیم کےلیے حضرت مسیح الامت کی مجالس سے بلا ناغہ مستفیدہوتے رہے نصاب تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت مسیح الامت کے یہاں چھ ماہ قیام فرما کر بیعت و ارشاد کے ذریعہ تزکیہ و احسان کی دولت سے مالامال ہوئے ، وہاں سے واپسی کے بعد دکن کی بلند پایہ عظیم شخصیت آپ کے والد ماجد حضرت شاہ صوفؔی غلام محمد صاحب نوّراللہ مرقدہ وبرد مضجعہ خلیفہ حضرت شاہ محمد حسین صاحب ؒ ناظم ونپرتی نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا حضرت صوفی صاحب ؒ کے بعد ڈاکٹر تنویر الحق صاحبؒ پاکستان خلیفہ حضرت مسیح الامتؒ (حال ہی میں حضرت کا انتقال ہوا ہے) سے مجاز ہوئے،تحصیل و تکمیل کے بعد مسندِ درس پر فائز ہو کر تشنگان علوم کو سیراب کرنے لگے چنانچہ دارالعلوم سبیل السلام (جو اس وقت مہدی پٹنم ،حیدرآبادمیں واقع تھا) کے اولین مدرسین میں سے آپ کا شمار ہوتا ہے پھر دارالعلوم حیدرآباد میں آپ نے تقریباً اٹھارہ سال قرآن و حدیث اور فقہ کی بڑی بڑی کتابوں کا دورۂ حدیث و افتاء میں بڑی مقبولیت کے ساتھ درس دیا ہے ،کتاب و حکمت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے وعظ و ارشادکے ذریعہ بھی اپنے فرضِ منصبی کو بخوبی انجام دیا ،جس سے ہزاروں بندگانِ خدا میں انقلاب و دینی بیداری پیدا ہوئی،بعدازں آپ نے چند احباب کی درخواست پر امریکہ کا سفر کیا اوراسی وقت سے تاحال شکاگو میں (تقریباً بیس