دنیا میں جو مکان بنانا چاہتا ہے وہ اعلیٰ سے اعلیٰ مکان بنانے کی کوشش کرتا ہے، جو پیسے کمانا چاہتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی کوشش کرتا ہے، جو کار خریدنا چاہتا ہے وہ بہتر سے بہترکار کو ترجیح دیتا ہے، یہی حال ولایت کا ہے کہ آخرت کے اعتبار سے آدمی جس درجے کی کوشش اور مجاہدہ کرے گا، حق تعالیٰ شانہ، اُس درجے کی ولایت دیں گے۔
جب اصطلاح میں ایمان والوں کے لئے ولی کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے خاص ولی مراد ہوتے ہیں۔ ہر کسی کو ولی نہیں کہتے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی ولایت سب کو حاصل ہے۔ جب بزرگانِ دین اور اولیاء اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے عام مسلمان مراد نہیں ہوتے یا اس سے عام درجے کا ایمان اور عام درجے کا تقویٰ مراد نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ درجے کا ایمان اور اعلیٰ درجے کا تقویٰ مراد ہوتا ہے۔ آج کی اس نشست میں ولایتِ خاصہ کی تھوڑی سی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔ ولایت میں ہوتا کیا ہے؟ ولایت حاصل کیسے ہوتی ہے؟ اس ولایت کو حاصل کیا جاسکتا ہے یا نہیں کیا جاسکتا؟ ولایت حاصل کرنے کا حکم ہے یا نہیں ہے؟ بہت سے لوگ اس معاملے میں تذبذب کا شکا رہیں، یہ بات تھوڑی وضاحت طلب ہے۔
لوگ تذبذب کا شکار اس لیے ہیں کہ اس سلسلہ میں اُمت کے دو طبقے پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ ولایت اور ولیوں کی باتوں کو بالکل نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ قرآن و حدیث ہے، پتہ نہیں ان صوفیوں نے کہاں سے یہ واہیات نکال دی ہیں۔ دوسرا طبقہ اولیاء کو ماننے والوں میں غالی قسم کا ہے۔ جاہل صوفیوں کا طبقہ یہ کہتا ہے کہ قرآن و حدیث میں ظاہری مسائل ہیں، تصوف کوئی اور چیز ہے، اس کا تعلق علمِ باطن سے ہے، یہ صرف سینہ بہ سینہ چلتا ہے۔ یہ دونوں طبقات غلط ہیں۔ ایک نے ولایت کو چھوڑا اور دوسرے نے قرآن و حدیث کو چھوڑا، دونوں غلطی پر ہیں۔