بچھادینا۱؎اور آپ کے گھر کے اوپر گندگی پھینک دینا۔۲؎ ان تمام باتوں کا مطلب یہی جبر تو ہے کہ آپ ﷺجو کچھ کررہے ہیں اُسے چھوڑ دیں۔
ایسی حرکتوں سے آدمی کی یکسوئی میں فرق پڑ جاتا ہے اور ذہنی تکلیف الگ ہوتی ہے، حضور ﷺصرف یہی فرماتے تھے کہ اے عبدمناف! پڑوسیوں کا حق خوب ادا کرو۔۳؎ اس سے زیادہ کچھ نہیں فرماتے تھے،اور نہ اُلجھتے تھے۔
آپﷺکے ساتھ جو واقعات پیش آئے ہیں اُنہیں ہم اپنے مذاکرے میں سنتے رہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کو کیسی کیسی مشقتیں اور قربانیاں جھیلنی پڑیں۔ ابتداء میں پچیس مشرکین کی ایک جماعت تھی جس کا کام صرف یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے منصوبے بناتے اور نئے نئے راستے لوگوں کو سجھاتے، اس جماعت کا سردار ابولہب تھا۔ قاضی سلیمان صاحب کی سیرت کی کتاب ''رحمۃ اللعالمین'' میں اس کی تھوڑی سی تفصیل ملے گی۔ ان کی گروپ میٹنگ کے بعد حضور ﷺکے ساتھ بائیکاٹ کا قصہ پیش آیا تھا۔ تین سال شعب ابی طالب(ابو طالب کی گھاٹی) میں حضور ﷺاور اُن کے خاندان کو رہنا پڑا۔ اُن کے ساتھ نہ کوئی خرید و فروخت کرتا، نہ اُنہیں اپنی دُکان میں آنے دیتا، نہ کھانے کی کوئی چیزخرید سکتے تھے اور نہ پہننے کی، نہ قافلے والوں سے ملنے کی اجازت تھی اور نہ بات کرنے کی اجازت تھی۔ جتنے لوگ حضور ﷺپر ایمان لانے والے تھے اورجو حضور ﷺکے خاندان والے تھے جن میں بعض مسلمان بھی نہیں تھے۔جیسے ابوطالب تو وہ بھی شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ جو قبیلہ حضور ﷺکا خاندانی لحاظ سے ساتھ دے رہا تھا اُن لوگوں کے ساتھ بھی بائیکاٹ کیا گیااور ایک دن دو دن، ایک مہینہ دو مہینہ، چھ مہینہ اور
-----------------------------------------------------
۱؎: روح المعانی: ۲۳ / ۱۷۴۔ ۲؎: تاریخِ طبری: ۱ / ۵۵۳۔ ۳؎:سیرت ابنِ ہشام: ۲ / ۲۶۳۔