سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
قریب ایک گاؤں کوٹلہ میں نہایت سادگی سے ایک ایسی خاتون سے فرمایا جو عمر میں حضرت والا سے دس سال بڑی تھیں لیکن پورے گاؤں میں ان کی دینداری و بزرگی کا شہرہ تھا،اسی لیے حضرت والا نے ان کا انتخاب فرمایا ۔ حضرت والا فرماتے ہیں کہ شیخ کی صحبت میں مدتِ طویلہ تک رہنا ان کی وجہ سے ہی ممکن ہوا،شیخ پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ کے ساتھ حضرت والا کے شدید والہانہ تعلق کو دیکھ کر اہلیہ نے شروع ہی میں خوشی سے اجازت دے دی تھی کہ آپ جب تک چاہیں شیخ کی خدمت میں رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا، ہماری طرف سے آپ پر کوئی پابندی نہیں۔حضرت فرماتے ہیں کہ وہ ہمیشہ دین میں میری معین رہیں اور ابتدا ہی سے مجھ سے کہا کہ ہم ہمیشہ آپ کاساتھ دیں گے جو کھلائیں گے کھا لیں گے، جو پہنائیں گے پہن لیں گے،اگر فاقہ کریں گے ہم بھی فاقہ کریں گے آپ جنگل میں رہیں گے تو ہم بھی جنگل میں رہیں گے،آپ سے کبھی کوئی فرمایش اور مطالبہ نہیں کریں گے اور کبھی آپ کو پریشان نہیں کریں گے۔حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس عہد کو پورا کر دکھایا اور زندگی بھر کسی چیز کی فرمایش نہیں کی نہ زیور کی ، نہ کپڑے کی ، نہ مال کی ،دنیا کی محبت ان میں تھی ہی نہیں ، جانتی ہی نہ تھیں کہ دنیا کدھر رہتی ہے۔ جب گھر میں داخل ہوتا تو اکثر و بیشتر تلاوت کرتی ہوتیں۔ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ نے حضرت والا کے لیے فرمایا تھا کہ یہ تو صاحبِ نسبت ہیں ہی لیکن ان کی گھر والی بھی صاحبِ نسبت ہے ۔ ۱۹۶۰ء میں جب حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ نے پاکستان ہجرت کی تو آپ ساتھ آئے لیکن اپنی اہلیہ اور فرزند مولانامحمد مظہر میاں صاحب کو جو اس وقت بچے تھے ہندوستان میں چھوڑ آئے اور قلتِ وسائل کی وجہ سے ایک سال تک نہ بال بچوں کو پاکستان بلاسکےاور نہ خود جا سکے،یہ ایک سال حضرت پیرانی صاحبہ نے بڑے مجاہدے میں گزارا لیکن کبھی شکایت لکھ کر بھی نہیں بھیجی، بس ایک خط میں بچے کی شدید علالت کا تذکرہ کیا اور دعا کے لیے عرض کیا، واپسی کا مطالبہ اور شکایت پھر بھی نہ لکھی ؎