سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
کہ کعبہ شریف پر ہردم تجلی الٰہی بڑھتی رہتی ہے،یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاص کانتیجہ ہے ؎ معجزہ ہے کہ آلاتِ پیما نہ تھے وسطِ دنیا میں ہے کعبہ محترم (حضرت والادامت برکاتہم) راقم الحروف عرض کرتاہے کہ روایات میں آتا ہے کہ اﷲتعالیٰ کی ذات مبارکہ تھی اور کچھ نہ تھا اور اﷲتعالیٰ کاعرش پانی پر تھا،جب اﷲتعالیٰ نے زمینوآسمان بنانے کا ارادہ فرمایاتواس پانی میں سے روٹی کے مانند زمین کو ظاہر فرمایا اورسب سے پہلے وہی جگہ ظاہرہوئی جہاں کعبۃ اﷲہے اور پھر سب سے پہلے زمین کو بیت المقدس کی جانب پھیلایاگیاجس میں چالیس سال کا عرصہ لگا، اس لیے حدیث میں آتاہے کہ بیت المقدس کی بنیاد خانہ کعبہ کی بنیاد کے چالیس سال بعد رکھی گئی، اس بنیاد سے مراد نور کی بنیادیں ہیں جن پر بعد میں اینٹ پتھر کی بنیادیں رکھی گئیں۔ خانہ کعبہ کی سب سے پہلی تعمیر فرشتوں نے فرمائی اور اس کے لیے ایک سرخ یاقوت کاخیمہ لایاگیا تھا، وہ خانہ کعبہ کی جگہ پر رکھاگیا اور فرشتے اس کاطواف کرتے تھے ۔ پھرآدم علیہ السلام دنیامیں تشریف لائے توہندوستان سے پیدل چل کر مکہ شریف گئے،اس سے پہلے خیمہ اٹھالیاگیاتوانہوں نے اﷲتعالیٰ کے حکم سے اس کی تعمیر فرمائی پھراس کے انہدام کے بعد حضرت شیث علیہ السلام نے تعمیر کی پھروہ طوفان نوح میں گرگئی، توپھرنوح علیہ السلام نے اس کی تعمیرفرمائی پھرمدت مزید گزرنے کی وجہ سے اورسیلابوں کی کثرت کی وجہ سے کعبہ گرگیااورمٹی میں دب گیا اور وہاں ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا، جس کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ محترمہ اور اسماعیل علیہ السلام کوچھوڑاتھا۔اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی جس کا قرآن مجید نے تفصیل سے ذکرکیاہے۔