ہے۔ سراپا نور، عقائد، اعمال، سیاست، اخلاق اور قول وقرار تک جون سا پہلو چاہو، الٹ پلٹ کر دیکھ لو۔ روشن اور درخشندہ ہی پاؤ گے۔
ہوں سراپا درد جس پہلو سے الٹو درد ہوں
آپ کی سیرت طیبہ اور حیات نبویہ کا ہر گوشہ قابل دید دشنید ہے ؎
زفرق تابہ قدم ہر کجا کہ مے نگرم
کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست
ہم اپنی تنگی داماں سے شکوہ سنج ہیں اور گلستان نبوت سے صرف گلہائے سخن پیش کرنے پر قناعت کرتے ہیں ؎
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گلچین بہار توز داماں گلہ دارد
یہ بجا ہے کہ مرزاقادیانی نے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کو اور اولیاء وعلماء امت کو ولد الحرام، ذریۃ البغایا، کنجریوں کی اولاد، حرامزادے، خنزیر، کتے، بندر، شیطان، گدھے، کافر، مشرک، یہودی، مردود، ملعون اور بے شرم وبے حیا وغیرہ کہا۔ مانا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ ایک ایک لفظ لکھا اور مانے بغیر چارہ نہیں۔ کیونکہ یہ آج بھی مرزاقادیانی کی پچاس الماریوںوالی کتابوں میں موجود ہے اور اسے اب چاٹا نہیں جا سکتا۔ یہ سب بجا اور درست۔ یہ سب آج بھی کتابوں میں مسطور ومذکور اور موجود ہے۔ لیکن بایں ہمہ مرزاقادیانی کا دہن مبارک بدزبانی سے کبھی آلود نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ تو خود فرماتے ہیں:
بدتر ہر ایک بد سے ہے جو بدزبان ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے
گوہیں بہت درندے انساں کی پوستیں ہیں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے
(درثمین اردو ص۱۲)
اور جب وہ خود بدزبانی کو نجاست اور بدزبان کو بیت الخلاء فرمارہے ہیں تو وہ خود کب بدزبانی فرماسکتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے کسی کو کبھی گالی نہیں دی۔ نبوت کی زبان سے بھلا گالی کب نکل سکتی ہے۔ جب کہ نبی خود کہتا ہے کہ: ’’گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے۔‘‘
(ست بچن ص۲۱، خزائن ج۱۰ ص۱۳۳)