مرزائیو! (تریاق القلوب ص۳۴، خزائن ج۱۵ ص۲۰۱، انجام آتھم ص۱۴، خزائن ج۱۱ ص۲۹۸) سے ہماری درج کردہ اپنے مسیح موعود کی عبارات غور سے پڑھو تو تم پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ مرزاغلام احمد قادیانی یہ نہیں لکھتے کہ میری بیوی بیوہ رہ جائے گی۔ بلکہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا۔ ایک کنواری ہوگی اور دوسری بیوہ۔ پس تم بتاؤ کہ کس بیوہ عورت سے مرزاقادیانی کا نکاح ہوا؟ اگر کسی بیوہ سے نکاح نہیں ہوا اور یقینا نہیں ہوا تو تمہیں مرزاقادیانی کو کاذب ماننے میں کون سا امر مانع ہے؟ کسی بیوہ عورت سے نکاح نہ ہونے کے باعث مرزاقادیانی کا ثیب والا الہام صریح جھوٹ اور کھلا ہوا افتراء ثابت ہوا۔ پس مرزاقادیانی کاذب ٹھہرے۔
کیونکہ خدائے تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ: ’’ان اﷲ لا یہدی من ہو مسرف کذاب‘‘ سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنے ہیں۔ جو شخص اپنے دعوے میں کاذب ہو اس کی پیش گوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۲، ۳۳۳، خزائن ج۵ ص ایضاً)
نیز مرزاقادیانی خود ارشاد فرماتے ہیں: ’’ظاہر ہے کہ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)
جب آپ مذہب رکھتے ہیں… تو!
مذہب کی حفاظت واشاعت سے بھی پوری پوری دلچسپی لیجئے! ’’نزول مسیح کا نشان مال کی کثرت کے متعلق ہے۔ اسے کوئی قابل قبول نہیں کرے گا۔ حدیث میں ’’حتیٰ لا یقبلہ احد‘‘ پر زور دیا گیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے آنے کے بعد مال کی طلب ختم ہوگئی۔ ورع واتقاء نے لوگوں کو مال سے متنفر کر دیا۔ واقعہ یہ ہے۔ خود مرزاقادیانی کا خاندان چندوں کے لئے مختلف حیلے تراش رہا ہے۔ مسیح قادیان نے خود لنگر کا چندہ، براہین احمدیہ کا چندہ، بہشتی مقبرہ کا چندہ، تبلیغ کا چندہ۔ غرض تحصیل مال کے لئے کس قدر باطل راہیں تھیں۔ جھوٹے حیلے تھے۔ جو اختیار کئے۔ معلوم ہوتا ہے اصل مسیح تاحال تشریف نہیں لائے۔ بھیس بدل کر کچھ ارباب ہوس ان کی جگہ لینے کی کوشش کر کے چل بسے۔ سچے مسیح کا انتظار ہنوز باقی ہے جو دنیا کو مال سے بے نیاز کر دے گا۔‘‘