درخواست کی کہ (مولانا) محمد علی ہمیں دے دو۔ فرمایا انہیں تمہیں دے کر اپنے پاس کیا رکھوں؟ چنانچہ ان کی درخواست کو قبول نہ فرمایا اور مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ جس طرح بخاری صاحب مرحوم نے جماعت کو تقسیم کیا۔ اسی طرح لاہور کے دفتر کو بھی تقسیم کردیا۔ ایک حصہ احرار ملا دوسرا مجلس کو۔ اس موقع پر مولانا نے مرحوم مجلس احرار اور اس کے جلیل القدر زعماء اور کارکنوں کی قربانیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
مولانا نے جماعتی دستور کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے کارکن آزاد ہیں۔ جس سیاسی جماعت میں چاہیں شامل ہوکر سیاسی کام کرسکتے ہیں۔ مجلس کے عہدیدار سیاسی کام نہیں کرسکتے۔
ووٹ کے معاملہ میں آزادی ہے جس نمائندہ کو صحیح سمجھیں۔ ووٹ دیں۔ مجلس بحیثیت جماعت کے دو کام کرے گی۔
۱… مرزائیوں کوممبر نہیں بننے دے گی۔
۲… جو لوگ مرزائیوں کو مسلمان سمجھیں گے۔ انہیں ممبر نہیں بننے دے گی۔
خصوصی اعلان
مولانا نے فرمایا کہ تمام مدعیان نبوت کی طرح مرزا غلام احمدقادیانی اور اس کے گروہ کو خارج از اسلام سمجھتا ہوں اور جو لوگ انہیں خارج از اسلام نہیں سمجھتے انہیں بھی دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔
آپ نے فرمایا کہ ہر آزاد شہری کو اپنا مطالبہ پیش کرنے کا حق ہوتا ہے۔ جیسے آج کل ون یونٹ اور صوبائی خودمختاری وغیرہ کے مطالبات پیش ہورہے ہیں۔ چونکہ میں بھی ایک آزاد شہری ہوں اور اس ملک کی خاطر جیلوں میں رہ چکا ہوں اور میرے جیل ہوتے ہوئے دو بھائی ۲۴؍گھنٹہ میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس لئے مجھے اپنا مطالبہ پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس موقع پر موصوف نے لندن پارلیمنٹ کے حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جنس پرستی کابل پیش ہوا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ دنیاکیا کہے گی؟ ایک ممبر نے کہاکہ میں آزاد شہری ہوں۔ دنیا کچھ کہے اپنے دل کی آواز کو دبا نہیں سکتا۔ دوسرے ممبر نے بھی اس کی حمایت کی بلکہ آگے بڑھ کر عیسائی بداخلاقی وبدکرداری کا خوب خوب مظاہرہ کیا۔ اور کہا اس کام میں میرا تجربہ دو طرفہ ہے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جو مزہ نیچے لیٹنے میں ہے اوپر لیٹنے میں نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بحیثیت آزاد شہری میرا مطالبہ آج بھی وہی ہے جس سے ۱۹۵۳ء میں ملک کے درودیوار گونج اٹھے