مولانا عبدالحق حقانی رئیس الجامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک الفاظ میں متکلم اسلام ہیں۔ ان کے خطیبانہ صلاحیتوں کا اعتراف ایشیا کی سب سے بڑے عوامی خطیب امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کو بھی تھا۔ متعدد بارشاہ جی نے ان کی تقریر کے بعد تقریر کرنے سے انکار فرمایا دیا اور انہیں وکیل ختم نبوت کہہ کر نوازا۔ جب آتش جوان تھا تو رات بھر خطابت کے جوہر دکھاتے اور سامعین سے داد حاصل کرتے۔ آج جب کہ ستر پچہتر کے پیٹے میں ہیں۔ ۳،۴؍گھنٹہ مسلسل بولنا اب بھی ان کے لئے مشکل نہیں، موضوع پر مفصل گفتگو کرنا اور عوام کی زبان میں انہیں بات سمجھانا مولانا کی ایسی خصوصیت ہے جس سے ان کے ہم عصر تہی دامن ہیں۔
ان لازوال خصوصیات کے پیش نظر ان کے معاصرین بھی معترف ہیں۔ مولانا نے جس طرح مفصل گفتگو کی ہے۔ وہ ہر پڑھنے والے کو تفکر وتدبر کی دعوت دے رہی ہے۔
کاش اتر جائے کسی دل میں میری بات
احقر نے تقریر سے قبل ’’ابتدائیہ‘‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھا ہے وہ درحقیقت موصوف کی تمہید ہے۔ میرا مقصد اس طول بیانی سے صرف یہ ہے کہ مرزائیت کا چہرہ پوری طرح نکھر کر سامنے آجائے۔ چنانچہ مرزا قادیانی کی کتابوں کے مختلف حوالے۔ موسیو بشیر الدین کے مختلف اقتباسات اور علامہ اقبال مرحوم کے رشحات فکر اسی مقصد کے پیش نظر خاص ترتیب سے میں نے نقل کئے ہیں۔
تقریرکے اجمالی نکات کی فٹ نوٹ کے ذریعہ اور زیادہ تفصیل کردی گئی ہے تاکہ کسی طرح کا ابہام نہ رہے۔ اس کے بعد یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
مانو نہ مانو جاں جہاں اختیار ہے
ہم نیک وبدحضور کو سمجھائے دیتے ہیں
استدراک! آج سے چار سال پہلے جب احقر نصرت العلوم گوجرانوالہ میں دورہ حدیث کا طالب علم تھا۔ مرزائیوں نے خالص مسلم آبادی میں اپنا اڈہ جمانے کی نامسعود سعی کی۔ اور گوجرانوالہ کے نام نام نہاد مسلم آفیسرز نے ان کا ہاتھ بٹایا لیکن مسلمانوں کی مزاحمت سے انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور ان کے پشت پناہی کرنے والے سرکاری افسران بھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ مسلمانوں کا جذبہ فدائیت کام آیا اور راتوں رات اس جگہ مسجد کھڑی کرکے اقبال کے اس مصرعہ کی حقیقی تعبیر پھر دہرا دی۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے