M
ہم اہل سنڈیمن کو سلام کرتے ہیں!
قادیان کے نبی کاذب کی امت مرزائیہ کی کوشش اور خواہش کے علی الرغم جب متحدہ ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی اور مرزائیوں کو اپنے شہر ’’مقدس‘‘ قادیان سے خواہی نخواہی نکلنا پڑا تو پاکستان میں آنے کے بعد اس امت نے بیک وقت دو خطوط پر سوچنا اور عمل کرنا شروع کیا۔ ایک تو پھر سے اکھنڈ بھارت کا قیام۔ دوسرے پاکستان میں کسی صوبے یا علاقے کو خالص مرزائی بنانا۔ تاکہ اکھنڈ بھارت کی مرزائی کوششوں کی ناکامی کی صورت میں پاکستان ہی میں ایک اڈہ قائم کرکے بین الاقوامی استعمار کے عزائم ومقاصد کو پروان چڑھایا جاسکے۔
اس کے لئے پنجاب کے پہلے انگریز گورنر سرفرانسس موڈی نے ابتدائً ربوے کی سرزمین برائے نام قیمت پر۔ آنہ فی مرلہ کے حساب سے۔ اس امت کو الاٹ کردی جہاں اس نے اپنا بیس کیمپ قائم کردیا۔ پاکستان کے اس انگریز گورنر کی ہلاّشیری وآشیرباد سے اس امت کے مذموم عزائم میں اور پختگی آئی اور اس نے بلوچستان کو میرزائی صوبہ بنانے کی ٹھانی۔ چنانچہ ۲۳؍جولائی ۱۹۴۸ء کو خلیفہ مرزائے قادیان نے کوئٹہ میں خطبہ دیا۔ جس میں انہوں نے بلوچستان کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا۔
’’اسے (بلوچستان) بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلدی احمدی بنایا جاسکتا ہے۔… اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنالیں تو کم از کم ایک صوبہ تو ایسا ہوجائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ ‘‘ (قادیانی مسئلہ۔ از مولانا مودودی بحوالہ الفضل ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ئ)
اس ہدایت کے مطابق مرزائیوں کی سرگرمیاں بلوچستان میں جاری ہیں۔ لیکن حال ہی میں بلوچستان کے ایک اہم علاقے کے غیور مسلمانوں نے اس امت کا جو حشر وہاں کیاا ور ان کے مذموم عزائم کو جس طرح خاک میں ملایا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی