فرصت ہے۔ لیکن استطاعت نہیں وہ اپنے کچھ اوقات تحفظ ختم نبوت کے لئے وقف کردے۔ جس کے پاس استطاعت ہے۔ لیکن فرصت نہیں وہ اپنی استطاعت سے ان کا ہاتھ بٹائے جو اپنے اوقات فراغت کو اس نیک کام پر صرف کرنے کے خواہشمند ہیں۔ جس کے پاس اہلیت اور صلاحیت کار ہے۔ لیکن فرصت اور استطاعت دونوں نہیں وہ ان دونوں کو صحیح راستے پر چلنے کے لئے صائب مشورے دے۔
اس طرح ہر پاکستان اپنی ضروریات کو کچھ کم کرکے اپنی استطاعت کا ایک حصہ تحریک کے لئے وقف کردے۔ آخر رمضان میں روزے بھی رکھتے ہو۔ ایک دن ایک وقت کا کھانا نہ کھائو۔ جو سینما اور اس قسم کی دوسری لغو تفریحات میں اپنے اوقات اور اپنی استطاعت دونوں ضائع کرتے ہیں۔ وہ مہینے کے کچھ روز اپنی وافر آمدن تحریک کے لئے وقف کردیں۔ یہ پس انداز پونجی خود اپنے ہی پاس علیحدہ رکھو۔ تم ہی اس کو رسول کی منت سمجھ کر خود ہی اس کے امانت دار بن جائو۔ پھر ہر ہفتے میں ایک یا دو روز اس کام کے لئے وقف کردو۔ جو لاہور سے باہر نہیں جاسکتے وہ کسی ایسے محلے میں جائیں۔ جہاں ان کی واقفیت ہے جو باہر جاسکتے ہیں۔ وہ کسی ایسے شہر یا قصبے میں جائیں۔ جہاں ان کی شناسائی ہے اور جو صاحب ہمت اپنے اندر یہ اہلیت محسوس کریں، وہ دور افتادہ دیہات میں پہنچیں۔ ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کیوں ضروری ہے اور اس کے لئے کیا عمل ہم سب پر فرض ہے۔
یہ مسئلہ خود آپ پر پوری طرح واضح نہیں تو میں نے ابھی آپ کے سامنے جو معروضات پیش کی ہیں۔ وہ آپ کو ایک پمفلٹ کی شکل میں ’’تحریک تحفظ نبوت‘‘ کے لاہور کے دفتر کی معرفت مل سکتی ہیں۔ انہیں کو پڑھ لیجئے جس حصے کو آپ پسند نہ کریں اسے قلم زن کردیجئے۔ آپ کو جو بہتر تجویز سوجھے اسے خود لکھ لیجئے۔
بہرحال اس پیغام کو ایک ایک پاکستانی گھرانے کے ایک ایک بچے، بوڑھے اور مستورات تک پہنچا دیجئے۔ خواتین گھروں کے اندر رہ کر خود اپنے خاندان کے افراد کو تلقین کریں۔ عورتیں جب چاہتی ہیں تو رشتے داروں کے پرانے جھگڑوں کو مٹا دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے شوہروں اور اپنے بھائیوں کو اپنی منت سماجت سے ہمیشہ قائم کرسکتی ہیں اور جب اس کے الٹ چاہیں تو دوستوں کے اندر پھوٹ بھی ڈلوا دیتی ہیں۔ ان کے لئے بھی توشہ آخرت