M
پیش لفظ
مرزائی مبلغ جب کسی سیدھے سادھے مسلمان کو اپنے دام فریب میں پھنسانا چاہتے ہیں۔ تو اس انداز سے بات کرتے ہیں۔ جیسے وہ بھی کسی مسلمان فرقہ ہی کے مبلغ ہیں اور ختم نبوت کا مسئلہ بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے۔ جیسے فروعی مسائل میں مسلمانوں کا باہم اختلاف رائے ہے۔ جس طرح آمین خفی اور جہری کفرواسلام کا معیار نہیں۔ اسی طرح ختم نبوت واجرائے نبوت بھی کفرواسلام کا فاصلہ نہیں بن جاتے۔ یعنی یہ فریب کار اس وقت اس مسئلہ کو اتنا ہلکا اور معمولی ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ یہ سادہ لوح مسلمان اسے معمولی تبدیلی رائے سمجھ کر ہمارے جال میں پھنس جائے۔ پھر اسے ایسا جکڑیں گے کہ ہمارے جہنم کے غار سے کبھی نہ نکل سکے گا۔ جب کو ئی سادہ لوح عقیدہ ختم نبوت کو واقعی معمولی اور فروعی بات سمجھ کر ان کے حلقہ میں پھنس جاتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ اسے ان تمام عقائد کا پابند ہوتا پڑتا ہے۔ جو اس گمراہ فرقہ کے لازمی اور مسلمہ عقائد باطلہ ہیں پھر یہی معمولی اور فروعی مسئلہ ایک سنگین اور بنیادی مسئلہ بن جاتا ہے۔ پھر یہی مسئلہ کفر اور اسلام کا معیار بن جاتا ہے۔ پھر نہ تو ختم نبوت کا عقیدہ رکھنے والوں سے نکاح ہوسکتا ہے۔ نہ ان کا جنازہ پڑھا جاسکتا ہے۔ نہ ان کے پیچھے نماز ادا ہوسکتی ہے۔ غرض بقول مرزا غلام احمد قادیانی جو اس پر ایمان نہ لائے۔ وہ مرد خنزیر اور ان کی عورتیں کنجریاں ہیں۔ معاذ اﷲ!
سادہ لوح مسلمان اور وہ حضرات جو علوم جدیدہ سے تو کماحقہ واقف ہیں۔ مگر مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام کے بنیادی مسائل پر بالغانہ نگاہ نہیں رکھتے۔ اشد ضرورت ہے کہ ان کو یہ سمجھا دیا جائے کہ عقیدہ ختم نبوت کوئی فروعی اور معمولی مسئلہ نہیں۔ بلکہ یہ مسئلہ ابدی جنت یا ابدی دوزخ حاصل کرنے کا مسئلہ ہے۔
یہ مسئلہ کفرواسلام کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہی ہے۔ جیساکہ ایک یہودی عیسائی ہوجائے تو وہ یہودی نہیں رہتا اور ایک عیسائی مسلمان ہوجائے تو وہ عیسائی نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان مرزائی ہوجائے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔ یہ مسئلہ اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے۔ جو شخص ختم نبوت کے عقیدہ کی دیوار کو پھلانگ گیا گویا وہ کفروارتداد کی گہری اور اندھی کھائی میں جاپڑا۔
برادر عزیز مولانا قاری عبدالحئی صاحب عابد نے یہ کتابچہ اسی ضرورت کے تحت لکھا