یہ امر بھی مثل نصف النہار روشن ہے کہ رحمت للعالمین بجز مصطفیﷺ کے اور کوئی نہیں۔ پروردگار نے رحمت للعالمین ہونا حضور علیہ السلام سے مخصوص فرمایا ہے۔ یہ تاج صرف شاہ مدینہ ہی کو پہنایا گیا ہے۔ چنانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
’’رحمت رانسبت خاص است بآں حضرت‘‘
(مدارج النبوۃ ج۱ ص۱۴۸)
امام جلال الدین سیوطیؒ نے حضورﷺ کے خصائص میں آپﷺ کا رحمت للعالمین ہونا بھی شمار کیا ہے۔ (خصائص کبریٰ ص۱۸۹،۱۹۰) امام فخر الدین رازیؒ نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں زیر تفسیر آیت ’’تلک الرسل فضّلنا‘‘ حضور علیہ السلام کا مخصوص بہ رحمت للعالمین ہونا لکھا ہے۔ (تفسیر کبیر) امام عز الدین بن عبدالسلامؒ نے بدایہ السول میں حضور علیہ السلام کا رحمت للعالمین ہونا آپﷺ کی خصوصیت لکھی ہے۔ (جواہرالبحار ج۱ ص۱۸۹) ابن جریر اور ابن ابی حاتم وابن مردودیہ اور بزار ابو یعلی بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے ایک حدیث کا اخراج کیا جس میں واقع معر اج مفصل بیان ہوتے ہوئے حضور علیہ السلام کا خدا کی حمد کرنا درج ہے۔ جو آپﷺ نے تمام انبیاء کے حمد کرچکنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کی حمد فرمائی۔ اس حمد میں حضور علیہ السلام نے اپنے خصائص ظاہر کرتے ہوئے اپنا رحمت للعالمین ہونا بھی اپنی خصوصیت بیان فرمائی۔
(دیکھئے شرح الشفاء ص۳۹۱، نیز خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۷۳)
مختصریہ کہ رحمت للعالمین بجز محمد رسول اﷲﷺ کے نہ کوئی ہے نہ خدا نے کسی کو فرمایا مگر کیا کہنے مرزا قادیانی کی جرأت اور دلیری کے۔ کہ آپ بمصداق ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ جس کے غلام بنتے ہیں۔ اسی آقا کی مسند پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ یعنی آپ نے حضرت سید المرسلین خاتم النّبیینﷺ کا ہمسر وہم پایہ بننے کی خاطر اپنی کتاب حقیقت الوحی میں یہ الہام لکھ مارا کہ اﷲ نے مجھے بھی یہ الہام کیا ہے۔ ’’وما ارسلنا الّا رحمت للعالمین‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۲، خزائن ج۲۲ ص۸۵)
استغفراﷲ! کتنی جرأت اور بے خوفی ہے جس خصوصیت کے مالک صرف آپﷺ ہیں اور جس صفت سے کسی نبی کو بجز حضورﷺ کے موصوف نہیں کیا گیا۔ آج گستاخ قادیانی اس وصف کا مالک بننا چاہتا ہے۔
مرزا قادیانی رحمت للعالمین بننے کو تو بن گئے۔ حضور علیہ السلام کے پہلو بہ پہلو بیٹھنے کو تو بیٹھ گئے۔ (معاذ اﷲ) مگر ہمیں دیکھنا تو یہ ہے کہ آپ دنیا کے لئے رحمت ثابت بھی ہوئے یا نہیں۔