نہیں۔ نہ ظاہراً نہ باطناً تو وہ کافر ہے اور اگر زبان سے اعتراف کرے مگر دل میں کفر بھرا ہوا ہو تو یہ منافق ہے اور اگر بظاہر دین حق کا اعتراف کرے مگر بعض ضروریات دین کی ایسی من مانی تاویل کرے جو صحابہ، تابعین، اجماع امت کے برخلاف ہو۔ (جیسے مرزا محمود کا ترجمۂ نبوت) تو ایسا شخص شریعت میں زندیق ہے۔ جیسے کوئی کہے کہ قرآن حق، جنت وجہنم حق، لیکن جنت کے معنی فقط اس قدر ہیں کہ انسان کو اچھے اخلاق سے وہاں گو نہ سرور حاصل ہوگا اور جہنم سے مراد یہ ہے کہ بداخلاق کو اس عالم میں گونہ ندامت ہوگی۔ فی الواقع کوئی جنت وجہنم نہیں۔ ایسا شخص زندیق ہے۔‘‘ (غرض زندیق سب کچھ مانتا ہے۔ مگر سب پرپانی پھیر دیتا ہے۔ یہ ہے زندقہ۔ اس میں دین کی صورت بحال رہتی ہے مگر حقیقت مسخ ہوجاتی ہے۔ یہ مرتد سے کئی گنا بدتر ہے۔)
’’واضح رہے کہ تاویل دو قسم کی ہے۔
۱… جو کسی نص قطعی اور حدیث صحیح اور اجماع امت کے مخالف نہ ہو۔
۲… جو کسی نص قطعی سے ٹکرائے۔ ثانی الذکر زندقہ ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ بیشک آنحضرت خاتم انبیاء ہیں۔ مگر اس کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کے بعد نبی کہلانا جائز ہے۔ رہا نبوت کا مفہوم (یعنی ایسا انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف خلق خدا کو ہدایت کرنے آئے۔ واجب الطاعۃ اور گناہوں سے معصوم اور غلطی سے مبرّا ہو۔) سو یہ آپﷺ کے بعد آئمہ دین میں موجود ہے۔ پس یہ شخص زندیق ہے جمہور فقہاء حنیفہ اور شافعیہ کا اتفاق ہے کہ زندیق واجب القتل ہے۔‘‘
توبۂ زندیق
زندیق اور مرتد کی حقیقت میں فرق واضح ہوچکا ہے۔ اس کے بعد احکام کا درجہ ہے۔ مرتد اگر توبہ کرے تو اس کی توبہ منظور کرلی جائے گی۔ لیکن زندیق کی توبہ کا اعتبار کریں تو کیونکر اس لئے کہ اس کے باطن میں حیثیت پوشیدہ ہے۔ توبہ سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ امام ابوبکر جصاص رازی تفسیر احکام القرآن ج۱ ص۵۳میں۔ اور علامہ بدر الدین عینی حنفی عمدہ ص۲۱۳ میں لکھتے ہیں: ’’قال ابویوسف قال ابو حنیفۃ اقتلو الزندیق سرفان توبۃ لا تعرف‘‘ {زندیق کو قتل کردو اس لئے کہ اس کی توبہ کا پتہ لگانا مشکل ہے۔} ’’قال مالک المسلم اذا تولی عمل السحر قتل والالتیتاب لان المسلم اذا ارتد بالحناً لم تعرف توبتہ باظہارہ الاسلام‘‘(جصاص ج۱ ص۱۵) {مالک فرماتے ہیں اگر کوئی مسلمان جادو کا عمل اختیار کرلے تو اس کی سزا قتل ہے تو یہ پیش کرنا ضروری نہیں کیونکہ باطنی مرتد کی توبہ اظہار الاسلام سے معلوم نہیں ہوسکتی۔}