دربارہ مسئلہ حیات وممات حضرت مسیح علیہ السلام‘‘ کے عنوان سے چھپی ہے۔ جس کے آخر میں علماء امروہہ، مراد آباد، رامپور، بسولی، دیوبند، سہارنپور، کاندھلہ، میرٹھ، دہلی، امرتسر، سیالکوٹ، جونپور کے علماء کے دستخط ہیں۔ ذیل میں فیصلہ کی تحریر اور دستخط کنندگان کے نام لکھے جاتے ہیں۔
۱۵،۱۶؍جون ۱۹۰۹ء کو مباحثہ
بموجودگی نواب صاحب رامپور یہ مباحثہ مجمع عام میں ہم لوگوں کے سامنے تواریخ مذکورہ میں ہوا۔ جماعت اہل اسلام کی طرف سے جناب مولانا مولوی ابوالوفاء محمد ثناء اﷲ صاحب مولوی فاضل امرتسری مناظر مقرر ہوئے۔ (پہلے دن جماعت قادیانی کے مولوی محمد احسن صاحب نے ایک تحریر پڑھی جس پر اعتراضات ہوئے) مگر دوسرے تیسرے روز جماعت قادیانی کی طرف سے منشی قاسم علی صاحب دہلوی نے تحریر پڑھی۔ وفات مسیح علیہ السلام کے متعلق جتنے دلائل قادیانی جماعت کی طرف سے پیش ہوئے۔ اسلامی مناظر نے ایک ایک کا جواب بڑی خوبی سے دیا۔ نمایاں طور پر حیات مسیح علیہ السلام کو ثابت کر دیا۔ فجزاہ اﷲ عنا وسائر المسلمین خیراً!
اس بحث سے شکستہ خاطر ہوکر قادیانیوں کو دوسرے مسئلہ (نبوت مرزاقادیانی) پر باوجود قرارداد وعدہ بحث کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ لہٰذا وہ دوسرا مسئلہ پیش کئے بغیر خود بخود چلے گئے۔ ’’فللّٰہ الحمد علیٰ ذالک صدق اﷲ العلی العظیم جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا‘‘ (مولوی) محمد عبدالغفار رامپوری، (مولوی) محمد لطف اﷲ، (ابن مفتی سعد اﷲ رامپوری)، (مولوی) محمد اعجاز حسین وکیل رامپوری، (مولوی) محمد فضل اﷲ رامپوری، (مولوی) محمد بشیر احمد مدرس اوّل مدرسہ انوار العلوم رامپور، (مولوی) محمد اسلم، (مولوی) فضل حق رامپوری مدرس اوّل مدرسہ عالیہ رامپور، (مولوی) افضال الحق رامپوری، (مولوی) محمد نبی رامپوری، (مولوی) مرتضیٰ حسن چاند پوری مدرس مدرسہ عربیہ دیوبند، (مولوی) ابراہیم سیالکوٹی، (مولانا) محمود حسن۱؎ مدرس اوّل مدرسہ اسلامیہ دیوبند، (مولانا) عبدالرحمن مدرس اوّل مدرسہ شاہی مراد آباد، (مولوی) محمود حسن سہسوانی مدرس دوم مدرسہ شاہی مراد آباد، (مولانا) محمد اشرف علی تھانوی، (مولانا) احمد حسن امروہی، مدرس اوّل مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ، (مولوی) محمد امین مدرس مدرسہ جامعہ مسجد امروہہ، (مولوی) رضا حسن مدرس مدرسہ امروہہ،
۱؎ دبدبہ سکندری میں بجائے محمود حسن کے محمد میاں لکھا گیا ہے جو غالباً نامہ نگار کی عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔