چالیس سال کی عمر میں آپ کا پہلا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا تھا اور اسی کی تبلیغ واشاعت کرتا رہا۔ جب اس کے حلقہ بگوشوں کی تعداد پانچ چھ سو سے زائد ہوگئی تو اس نے ایک اور چھلانگ لگائی اور تاج نبوت زیب سر کر کے منصب رسالت کی کرسی زریں پر متمکن ہوگیا۔ دعویٰ مسیحیت کے کئی سال بعد اس نے ایک کتاب لکھی۔ اس میں اس نے غیرمبہم لفظوں میں لکھا۔ ’’خدا وہ خدا ہے کہ جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب واخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶)
اب اس نے صراحتاً اپنے نبی ورسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ اس سلسلہ میں اس کی سوانح عمری کے مرتب نے مزید تفصیلات مہیا کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے: ’’حضور کا وہ مکتوب جو آخری مکتوب کہلاتا ہے اور جو ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کے اخبار عام لاہور میں شائع ہوا ہے۔ جس کی عبارت یہ ہے۔ جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں۔ وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خداتعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں۔ وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے اوپر کھولتا ہے۔ جب تک کہ انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو۔ دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ سو میں خدا کے حکم کے مطابق نبی ہوں۔‘‘
(عقائد احمدیت شائع کردہ انجمن احمدیہ قادیان ص۹۷،۹۸)
مرزاغلام احمدقادیانی جب نبی بن گیا تو اس کے پاس وحی بھی آنی چاہئے۔ وہ شیطان ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ اس لئے اس پر وحی آئی اور مسلسل آتی رہی۔ اس پر جب وحی آتی تھی تو اس کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟ اس کی منظر کشی اسی کے الفاظ میں سنئے۔
’’وحی آسمان سے دل پر ایسی گرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع، میں روز دیکھتا ہوں جب مکالمہ ومخاطبہ کا وقت آتا ہے تو اوّل دل پر ایک ربودگی طاری ہو جاتی ہے۔ تب میں ایک تبدیل یافتہ کے مانند ہو جاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور میرے ہوش گوبگفتن باقی ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت میں یوں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقۃ نے میرے تمام وجود کواپنی ہستی میں لے لیا ہے اور میں اس وقت محسوس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا ہے۔ جب یہ حالت ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے خداتعالیٰ دل کے ان خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتا ہے۔ جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال دل کے سامنے آیا تو