انسان اس انسانیت کے ارتقاء کی راہ میں بالکل اس قافلہ کے مانند ہے جو ایک متعین منزل کی طرف رواںدواں ہے۔ لیکن اس منزل تک پہنچنے کے راستے سے وہ آگاہ نہیں۔ کوئی واقف راہ شفیق رہنما اس کو راہ کی کچھ نشانیاں بتا دیتا ہے اور وہ قافلہ اس کی بتائی ہوئی نشانیوں کے مطابق کچھ راستہ طے کر لیتا ہے۔ لیکن اب اس قافلہ کو پھر کسی رہنما کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ اس کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق مزید کچھ اور فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ اس طرح منزل کی طرف بڑھنے کی صلاحیت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
باالآخر اسے ایک ایسا شخص مل جاتا ہے جو اسے راہ سفر کا ایک مکمل نقشہ دے دیتا ہے اور قافلہ اس نقشے کے حاصل کرنے کے بعد کسی نئے رہبر کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان اور معاشرہ کا ارتقاء کوئی اندھا دھند عمل میں آنے والی حرکت نہیں بلکہ یہ ایک باہدف عمل ہے اور اس کی ایک ہی راہ ہے جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ اس عمل کا نقطۂ آغاز اور راہ سفر اور منزل مقصود سب متعین اور مشخص ہے۔
سنت الٰہی کے مطابق نبوت اور وحی کی یہ راہ بتدریح کمال تک پہنچی ہے۔ جیسا کہ ایک عمارت مکمل ہوتی ہے۔ عمارت کی تعمیر کا ہدف اس کے ستون اور دیواریں ہیں۔ ان سے ایک مکمل مکان ہوتا ہے نبوت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ نبوت مصطفوی اس کی کامل صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم ومکمل ہو جانے کے بعد وہ مزید کسی اضافے کو قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ تکمیل کے بعد کوئی اضافہ کمال کے منافی ہوتا ہے۔ رسول اﷲﷺ کی ایک مشہور حدیث میں اسی جانب اشارہ کیاگیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا نبوت ایک مکان کی مانند ہے لیکن اس کے مکمل ہونے میں صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی۔ میں ہی وہ اینٹ ہوں۔
یہ تکمیل انسانی ارتقاء کا ایک امر فطری ہے۔ ایک انعام خداوندی وموہبت الٰہی کی حیثیت سے قرآن اسی اتمام کا اعلان کرتا ہے۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علییکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (المائدہ:۳)‘‘
عقیدۂ ختم نبوت کا انکار دراصل انسانی اور انسانیت کی فطری تکمیل اور ایک نعمت الٰہی کی بغاوت ہے۔ دوسرے نبی کی ضرورت عقلاً کئی وجوہ سے ہوتی ہے اور ماضی کی تاریخ بھی اس پر شاہد ہے۔
۱… کسی کی نبوت وقتی ہو۔ پس وہ وقت گذر جانے پر دوسرے کسی نبی کی ضرورت ہو۔