وحدیث سے ایسے محکم اور قطعی طریقہ پر ثابت ہے کہ اس میں ذرہ برابر شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن مجید میں آپﷺ کو خاتم النّبیین کہا گیا ہے اور خود آپﷺ نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا کہ سلسلہ نبوت مجھ پر ختم کر دیا گیا ہے۔ میں خاتم النّبیین ہوں اور اب میرے بعد کوئی نیا نبی اﷲ کی طرف سے نہیں آئے گا۔ اسی لئے رسول اﷲﷺ کے بعد صدیق اکبرؓ کے زمانہ خلافت سے لے کر آج تک پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ جس طرح توحید ورسالت، قیامت وآخرت اور قرآن کے کلام اﷲ ہونے کا منکر، پنجگانہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا منکر مسلمان نہیں ہوسکتا ایسا شخص کذاب ہے، ملعون ہے، دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہے۔ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح جو شخص اس کی نبوت کو تسلیم کرے وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔ اگر وہ پہلے سے مسلمان تھا تو اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیا جائے گا۔
امت کی پوری تاریخ میں عملاً یہی ہوتا رہا ہے۔ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور تمام صحابہ کرامؓ نے مدعی نبوت ’’مسیلمہ کذاب‘‘ اور اس کے ماننے والوں کے متعلق یہی فیصلہ صادر فرمایا۔ حالانکہ یہ بات محقق ہے کہ وہ لوگ توحید ورسالت کے قائل تھے ان کے یہاں اذان بھی ہوتی تھی اور اذان میں ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ‘‘ اور ’’اشہد ان محمدا رسول اﷲ‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ختم نبوت سے متعلق اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ ہے۔
لیکن غلام احمد قادیانی نے اس بنیادی اور اجماعی عقیدہ سے بغاوت کی ہے اور اپنے لئے ایسے الفاظ کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کیا ہے کہ اس میں کسی طرح کی کوئی تاویل اور توجیہہ کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے معتقدین اس کو دیگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مثل نبی کہتے ہیں اور اس پر ان کو بے حد اصرار بھی ہے۔ مرزاغلام احمد کے بیٹے مرزابشیرالدین محمود نے ’’حقیقت النبوۃ‘‘ ایک کتاب شائع کی تھی جس کا موضوع ہی مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کو ثابت کرنا تھا اور اس کتاب میں مرزاقادیانی کے نبوت کے دلائل خود مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابوں سے پیش کئے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے لئے مسیحیت اور مہدویت کا اتنی کثرت سے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا انکار یا اس کی تاویل ناممکن ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام جو بالاجماع معصوم ہیں ان کی بہت سخت توہین کی ہے اور بہت سے مقامات پر اپنے کو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل بلکہ تمام انبیاء کی روح بتایا ہے۔ نیز معجزات کا استہزاء کیا ہے۔ قرآن میں تحریف کی ہے۔ احادیث کی بے حرمتی کی ہے۔ وغیرہ وغیرہ!