روپے کر دی اور اسی کے ساتھ اس وعدہ کا بھی اعلان کیا کہ جنوری ۱۸۸۹ء میں کتاب طبع ہوکر شائع ہو جائے گی۔ (تبلیغ رسالت ج۱ ص۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۳)
چونکہ مرزاقادیانی کے بے پناہ پروپیگنڈے نے لوگوں کو کتاب مذکور کا مشتاق بنادیا تھا۔ اس لئے بڑی کثیر تعداد میں کتاب کے آرڈر آئے۔ اس مقبولیت کو دیکھ کر دو حصوں کے طبع ہو جانے کے بعد اس کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیا اور فارغ البال لوگوں سے دس روپے کے بجائے پچیس روپے سے لے کر سو روپے تک وصول کرنے لگے۔
(تبلیغ رسالت ج۱ ص۲۳،۲۴، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۳)
بدمعاملگی اور سخن تراشی
آنجہانی نے ابتداء میں پانچ حصوں پر مشتمل کتاب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا اور پانچوں حصوں کی پیشگی قیمت لوگوں سے وصول کر لی تھی۔ لیکن چار حصے شائع کرنے کے بعد اس سلسلہ کو بند کر دیا جس کی بناء پر خریداروں کو شکایت ہوئی۔ اب اس بدمعاملگی پر پردہ ڈالنے کی غرض سے سخن تراشی اور الہام بازی شروع کر دی۔ چنانچہ براہین احمدیہ جلد چہارم کے آخری صفحہ پر ’’ہم اور ہماری کتاب‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی۔ اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہراً اور باطناً حضرت رب العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر جلد چہارم تک انوار حقیقت اسلام کے ظاہر کئے ہیں۔ یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۱ ص۴۷، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۵۶،۵۷)
اس تولیت واہتمام خداوندی کے ڈھونگ کا واحد مطلب یہ تھا کہ اب میں باقی ماندہ کتاب کی طبع واشاعت کا ذمہ نہیں لے سکتا۔ اب یہ کام خدا ہی کے سپرد ہے وہ چاہے تو طبع کرائے یا نہ طبع کرائے میری کوئی ذمہ داری نہیں۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
مرزاقادیانی لوگوں کی پیشگی رقمیں شیرمادر کی طرح ہضم کر گئے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کو شکایتیں ہوئیں اور مرزاقادیانی کی بد معاملگی کا چرچا برسرعام ہونے لگا تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ شکوہ وشکایتوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ایک عرصہ کے جتن کے بعد تقدس کا جو سکہ جمایا گیا تھا کہیں عقیدتمندوں کے دلوں سے زائل نہ ہو جائے۔ اس لئے یکم؍مئی ۱۸۹۳ء کو آٹھ صفحات کا ایک اشتہار شائع کیا۔ جس میں لکھا کہ: ’’مجھے ان مسلمانوں پر نہایت افسوس ہے کہ جو