نتیجہ… آہ! محمدی بیگم کے لئے مرزاقادیانی کی بیقراری بے چینی اور ان کے اقرباء کی بے التفاتی وسرد مہری۔ افسوس! خدا کے دشمن، رسول کے دشمن، دین کے دشمن، مرزاقادیانی کے دشمن، نکاح کی تلوار سے ان کا جگر شق کر رہے ہیں۔ مرزاقادیانی کو آتش فرقت میں ڈال رہے ہیں اور ذلیل وخوار کر کے ان پر جگ ہنسائی کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں۔ مگر خدا مرزا کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ مرزااعلان کرتے ہیں کہ اگرمیں اس کا ہوں تو مجھے ضرور بچائے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے انہیں نہیں بچایا۔ گویا خدا نے گواہی دے دی کہ مرزاقادیانی اس کی طرف سے نہیں۔
۵… سلطان محمد مقررہ میعاد میں نہ مرا تو مرزاقادیانی نے اس کی میعاد میں توسیع کرتے ہوئے کہا کہ خیر اڑھائی سال میں نہ سہی میری زندگی میں تو ضرور مرے گا اور میں اس کے مرنے یانہ مرنے کو اپنے سچا یا جھوٹا ہونے کی کسوٹی قرار دیتا ہوں۔ لکھتے ہیں: ’’پھر میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ یہ قصہ یہیں ختم ہوگیا ہے اور آخری نتیجہ بس یہی تھا جو ظہور میں آچکا اور پیش گوئی کی حقیقت صرف اسی پر ختم ہوگئی، نہیں! بلکہ اصل بات (سلطان محمد کامرنا اور اس کی منکوحہ کا بیوہ ہوکر مرزاقادیانی کے حبالۂ عقد میں آنا) اپنے حال پر قائم ہے اور کوئی شخص کسی حیلہ کے ساتھ اسے نہیں ٹال سکتا۔ یہ خدائے بزرگ کی طرف سے تقدیر مبرم ہے اور عنقریب اس کا وقت آئے گا۔ پس اس خدا کی قسم جس نے حضرت محمدﷺ کو مبعوث کیا اور آپ کو تمام مخلوق سے افضل بنایا۔ یہ پیش گوئی حق ہے اور عنقریب تم اس کا انجام دیکھ لو گے اور میں اس کو اپنے صدق اور کذب کے لئے معیار ٹھہراتا ہوں اور میں نے نہیں کہا۔ مگر بعد اس کے کہ مجھے اپنے رب کی جانب سے خبر دی گئی۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
نتیجہ… مرزاقادیانی نے سلطان محمد کی موت کو اپنے صدق یا کذب کا معیار ٹھہرایا تھا۔ یعنی اگر سلطان محمد مرزا کی زندگی میں مر جائے تو مرزاقادیانی سچے ورنہ جھوٹے۔ مگر افسوس کہ اس معیار پر بھی مرزاقادیانی جھوٹے ہی ثابت ہوئے۔ کیونکہ مرزاقادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو خود چل بسے اور جناب سلطان محمد صاحب ان کے بعد اکتالیس سال تک زندہ سلامت رہے۔
۶… سلطان محمد کی موت ہی کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’یاد رکھو اس پیش گوئی کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی۔ (یعنی احمد بیگ کا داماد مرزاقادیانی کی زندگی میں نہ مرا۔ناقل) تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔ وہی رب ذوالجلال جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)