طاقتور اور شہ زور انسانوں کو پکڑوا کر ایک ضعیف سے ضعیف انسان کے پاؤں میں ڈال دے۔ سچ ہے۔ ’’وتعزّ من تشاء وتزلّ من تشاء بیدک الخیر انک علیٰ کل شیٔ قدیر‘‘
مرزائیوں کا پہلا مقدمہ فوجداری
سو واضح ہو کہ سب سے پہلے مرزاقادیانی کے حکم سے ان کے مخلص مرید حکیم فضل دین بھیروی نے مجھ پر زیردفعہ ۴۱۷ تعزیرات ہند (دغا) گورداسپور میں استغاثہ دائر کیا۔ یہ مقدمہ ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء کو رائے گنگا رام صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ومجسٹریٹ درجہ اوّل گورداسپور میں حکیم مذکور نے معرفت خواجہ کمال الدین ومولوی محمد علی وکلاء دائر کیا رائے گنگا رام صاحب تھوڑے عرصہ کے بعد وہاں سے تبدیل۱؎ ہوگئے۔ پھر یہ مقدمہ ان کے جانشین لالہ چندولال صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ومجسٹریٹ درجہ اوّل کی عدالت میں چلتا رہا۔ اس مقدمہ میں استغاثہ کی طرف سے علاوہ دیگر گواہان کے مرزائی جماعت کے اعلیٰ ارکان مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کی بھی شہادتیں گزریں اور نیز بابو غلام حیدر تحصیلدار کی بھی شہادت ہوئی اور صفائی کی طرف سے اس مقدمہ میں بانی ٔ سلسلہ مرزائیہ جناب مرزاغلام احمد قادیانی کی بھی شہادت گزری۔ اس مقدمہ میں فتح ونصرت کے الہامات بارش کی طرح نازل ہوتے رہے۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مقدمہ (مرزائیاں) خارج اور ملزم (مولانا کرم الدین) عزت کے ساتھ بری کر دیا گیا۔ مرزاقادیانی کے الہامات کے پرخچے اڑ گئے اور دنیا میں فریق مقابل کی فتح وظفر کا نقارہ بچ گیا۔ یہ فیصلہ عدالت لالہ چندولال صاحب مجسٹریٹ درجہ اوّل سے ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء کو صادر ہوا۔ مرزائیوں کو اس مقدمہ میں بڑی بڑی مصیبتوں کا سامنا ہوا اور بے انداز روپیہ صرف ہوا نتیجہ مقدمہ کے متعلق ہم وہ مضمون درج ذیل کرتے ہیں۔ جو اس موقعہ پر سراج الاخبار جہلم مطبوعہ ۱۸؍جنوری ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا۔
۱؎ رائے گنگا رام صاحب خواجہ کمال الدین کے کلاس فیلو تھے اور ان مقدمات میں مرزائیوں کی بہت کچھ پاسداری کرتے تھے۔ چنانچہ ہم نے ان کی عدالت سے منتقلی کرنے کے لئے چیف کورٹ میں درخواست بھی کی تھی۔ اسی اثناء میں گورداسپور سے تبدیل ہوگئے۔ اس لئے اگر ہمارا دعویٰ بھی نہ ہوتا تو جیسا کہ مرزاقادیانی نے کہا کہ رائے چندولال ہماری پیش گوئی کے مطابق تبدیل ہوئے ہیں تو ہم بھی کہہ سکتے کہ رائے گنگارام ہماری دعا سے تبدیل ہوگئے۔ لالہ چندلال تو مرزائیوں کے دو مقدمات خارج کر کے مرزاقادیانی پر فرد جرم لگا کر تبدیل ہوئے۔ رائے گنگا رام بدون کاروائی کے چلے گئے۔