آخر دلائل کی جگہ ان نشانات نے لے لی جو حقیقت الوحی میں لکھے گئے ہیں کہ فلاں روز ہمیں اتنے روپے وصول ہوگئے۔ فلاں روز ہماری طبیعت علیل ہوگئی۔ فلاں دن لڑکے کا پاؤں پھسل گیا۔ فلاں فلاں لڑکا حرم سراء میں پیدا ہوگیا۔ فلاں مقدمہ میں ہمیں جیت ہوگئی۔ وغیرہ ذلک من الخرافات! ان نشانات پر ہم کسی قدر روشنی ڈالیں گے۔ لیکن ان نشانات کا نمبر بھی ۲۰۵ تک پہنچ کر ختم ہوگیا۔ چنانچہ آخری یہی نمبر تتمہ حقیقت الوحی میں درج ہوکر خاتمہ ہوگیا ہے۔
مناسب تو یہ تھا کہ مرزاقادیانی کی اس صریح دھوکہ بازی اور ابلہ فریبی کو دیکھ کر مسلمان ہوشیار ہو جاتے اور سمجھ لیتے کہ یہ سب دکانداری ہے اور روپیہ ٹکہ بٹورنے کا سامان ہے اور بس۔ لیکن دنیا میں بہت سے عقل کے اندھے ایسے بھی موجود ہیں کہ اپنی خوش اعتقادی سے ایسے ٹھگ بازوں کی دکان کی گرم بازاری کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ کئی ایک اشخاص آپ کے حلقہ مریدی میں داخل ہوگئے۔ مرزاقادیانی کا اس سے حوصلہ بلند ہوگیا۔ وہ طرح طرح کے دعاوی کرنے لگے۔ پہلے صرف ملہمیت اور مجددیت کا دعویٰ کیا۔ پھر ظلی وبروزی نبی کے بھیس میں جلوہ گر ہوئے۔ بالآخر کامل ومکمل نبی ورسول ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ بلکہ الوہیت کا جامہ پہن کر نیا آسمان اور نئی زمین کی خالقیت کا بھی دم بھرنے لگے اور ابن اﷲ بلکہ معاذ اﷲ ابواﷲ ہونے کے بھی الہام تراشے گئے۔ (ان کی تفصیل آگے آئے گی)
مرزاقادیانی کا جہاد
اگرچہ مرزاقادیانی (عصمت بی بی از بیچادری) جہاد بالسیف کی قدرت نہ رکھنے کے باعث انگیزوں کو خوش کرنے کے لئے حرمت۱؎ جہاد کا فتویٰ دے کر یوں گہرافشانی کرنے لگے ؎
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶، خزائن ج۶۷ ص۷۷)
لیکن آپ کے جہاد باللسان والقلم کی زد سے ہندو، مسلمان عیسائی وغیرہ کوئی قوم بھی نہ ببچ سکی۔ بلکہ سچ پوچھو تو انبیاء کرام بالخصوص نبی آخرالزمانﷺ اور آپؐ کی آل اطہار تک بھی مرزا کی بدگوئی کا نشانہ بنے۔
۱؎ والد ماجد (مرزاقادیانی) نے تو حرمت جہاد کا فتویٰ دے دیا۔ لیکن فرزند ارجمند (مرزامحمود قادیانی) نے ایک پوری کمپنی جنگ عظیم کے موقعہ پر بھرتی کرادی تاکہ وہ مسلمانوں (ترکوں) سے جنگ کریں۔ نیز جس روز بغداد نصاریٰ کے ہاتھ پر فتح ہوا۔ مرزائیوں نے چراغاں کیا۔