شبہات سے متاثر ہوکر اپنے سچے اور پاک مذہب اسلام کو بٹہ نہ لگائیں۔ نیز یاد رہے کہ لفظ مخالفین سے ہماری مراد مرزاقادیانی اور آپ کے ہم مشرب ہیں کو لفظ مخالفین کا اطلاق اس کی عمومیت کے اعتبار سے ہر اس شخص پر ہو سکتا ہے کہ جو مسئلہ زیربحث کا منکر ہو لیکن قادیانی نبوت کا خاصہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس خاصۂ کی حق ادائی میں ہم بھی مرزاقادیانی کے دوش بدوش ہوں۔ فافہم! چنانچہ آئندہ سے ہم لفظ مخالفین کے کلی افراد کے ذکر کو ترک کرتے ہوئے صرف مرزاقادیانی کی ذات مبارک کو ترجیح دیں گے اور آپ ہی کے نام نامی واسم گرامی سے یہ عنوان قائم کرتے ہیں۔
مرزاقادیانی کے نقلی شبہات کا جواب
چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’باوجودیکہ آنحضرتﷺ کے رفع جسمی کے بارے میں کہ وہ جسم کے سمیت شب معراج آسمان کی طرف اٹھائے گئے تھے۔ تقریباً تمام صحابہ کا یہی اعتقاد تھا لیکن پھر بھی حضرت عائشہؓ اس بات کو تسلیم نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ رویائے صالحہ تھی۔‘‘
(ازالۃ الاوہام ص۲۸۹، خزائن ج۳ ص۲۴۷،۲۴۸)
صاحبان! مرزاقادیانی کی عبارت مذکورہ سے دو باتیں ثابت ہوئیں:
۱… اوّل یہ کہ کل صحابہ معراج جسمانی کے قائل تھے۔
۲… دوئم یہ کہ حضرت عائشہؓ معراج جسمانی کی منکر تھیں۔
مرزاقادیانی کے لفظ تقریباً کو اگر حذف کر دیا جائے (جس کا اطلاق زیادتی کیا جاتا ہے) تب بھی بقول مرزاقادیانی یہ بات معلوم ہوئی ایک لاکھ صحابہ معراج جسمانی کا اعتقاد رکھتے تھے۔ کیونکہ ماہرین کتب رجال پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ صحابہ کرامؓ کی مجموعی تعدداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اب زیادتی حذف کر دینے پر ایک لاکھ ہی صحابہ کرامؓ کی تعداد رہی نہ؟ جب زیادتی حذف کر دینے پر ایک لاکھ صحابہؓ رہے اور یہ ایک لاکھ صحابہؓ معراج جسمانی کے وقوع کا اعتقاد رکھتے تھے۔ (کمامرّ انفا) تو اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس بات پر ایک لاکھ صحابہ کا اعتقاد ہو وہ اسلام میں کس درجہ قابل وقعت ہوگی۔
رہا یہ امر کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ معراج جسمانی کی منکر تھیں۔ سو واضح رہے کہ مرزاقادیانی کی یہ صریح دھوکہ دہی ہے۔ حضرت عائشہؓ معراج جسمانی کی ہر گز منکر نہ تھیں۔ بلکہ آپ معراج جسمانی کی قائل ہیں۔ چنانچہ درمنثور میں ہے: ’’عن عائشۃؓ قالت لما اسریٰ بالنبیﷺ الیٰ المسجد الاقصیٰ اصبح بحدیث الناس بذالک الیٰ آخرہ (درمنثور)‘‘ یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جس رات نبیﷺ بیت المقدس جاکر واپس