’’ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے اس خانہ خدا (جامع مسجد دہلی) میں صاف صاف اقرار کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیائﷺ کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘ (مرزاغلام احمد قادیانی کا تحریری بیان جو بتاریخ ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء جامع مسجد دہلی کے جلسے میں دیاگیا)
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۵۵، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۲ ص۴۴)
’’کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت کا دعویٰ کرتا ہے قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ کو خدا کا کلام یقین کرتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرتﷺ کے بعد رسول اور نبی ہوں؟‘‘ (انجام آتھم ص۲۷، خزائن ج۱۱ ص۲۷)
’’میں جانتا ہوں کہ ہر وہ چیز جو مخالف ہے قرآن کے وہ کذب، الحاد وزندقہ ہے۔ پھر میں کس طرح نبوت کا دعویٰ کروں جب کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
’’میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلتہ القدر وغیرہ سے منکر اور سیدنا ومولانا حضرت محمدﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب وکافر جانتا ہوں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۲، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰، مورخہ ۲۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ئ)
’’مجھے کب جائز ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں کی جماعت سے جاملوں۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
’’اے لوگو! دشمن قرآن نہ بنو اور خاتم النّبیین کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو۔ اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۱۵، خزائن ج۴ ص۳۳۵)
مجددیت اور ولایت کی طرف پیش قدمی
مندرجہ بالا اقتباسات میں مرزاغلام احمد نے صاف اور واضح الفاظ میں نبی کریمﷺ کو خاتم الانبیاء تسلیم کرتے ہوئے اس شخص کو کاذب اور کافر قرار دیا ہے جو نبی کریم حضرت محمدﷺ