توہین انبیاء
سب سے اوّل آپ کی دشنام طرازی کا تختہ مشق حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام بنے۔ جن کے آپ جانشین اور مثیل بھی بنتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
۱… ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک ومطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
۲… ’’آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے تھی کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک کنجری (کسبی) کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر ناپاک ہاتھ لگائے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
یہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کی توہین ہے۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو ’’وجیہاً فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین‘‘ فرما کر ان کی توصیف کی ہے۔ پھر ان کے معجزات کی تحقیر کی جن کی شہادت صریح طور پر قرآن میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) پر رقمطراز ہیں: ’’ممکن ہے کہ آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شبکور کو اچھا کیا ہو یا کسی اور بیماری کا علاج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اس زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا۔ جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا ہو تو وہ معجزہ آپ کا نہیں بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے ہاتھ میں سوائے مکروفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘
ایسا ہی (ازالہ اوہام ص۳۰۲ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۴) میں لکھا ہے: ’’جو لوگ فرعون کے وقت مصر میں ایسے ایسے کام کرتے تھے جو سانپ بنا کر دکھلا دیتے تھے اور کئی قسم کے جانور تیار کر کے ان کو زندہ جانوروں کی طرح چلا دیتے تھے۔ وہ حضرت مسیح کے وقت عام طور پر یہودیوں میں پھیل گئے اور یہودیوں نے ان کے بہت سے ساحرانہ کام سیکھ لئے تھے۔ سو تعجب کی جگہ نہیں کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور پر ایسے طریق (یعنی سحر اور جادوگری) پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسا پرندہ پرواز کرتا ہے۔‘‘