ضخامت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں حوالہ جات پر اکتفا کرتا ہوں اور دلائل عقیلہ کی طرف رجوع کرتا ہوں:
دوش از مسجد سوئے میخانہ آمد پیر ما
چیست یاران طریقت بعد ازیں تدبیر ما
دلائل عقلیہ
دلیل اوّل
نظام کائنات ایک درسگاہ ہے اور انبیاء کرام بہ منزلہ معلمین کے ہیں اور ظاہر ہے کہ معلم اعلیٰ کی تعلیم سب کے آخر میں ہوتی ہے۔ اس لئے کہ جب تک تعلیم کے ابتدائی مراتب حاصل نہ کر لئے جاویں معلم اعلیٰ کی تعلیم کا حاصل کرنا دائرہ امکان سے خارج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سید عالمﷺ کو جملہ انبیاء کے آخر بھیجا گیا۔
دلیل دوم
کسی نبی کے بعد دوسرے نبی کے آنے کی دو وجہ سے ضرورت ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی صیغہ کی تعلیم غیرمکمل رہ گئی ہو تو اس کی تکمیل کے لئے کوئی دوسرا نبی بھیج دیا جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی تعلیم میں تحریف ہوگئی ہو، دنیا میں اس کی صحیح تعلیم باقی نہ رہ گئی ہو تو دوسرا نبی صحیح تعلیم دے کر بھیج دیا جاتا ہے۔ تاکہ لوگ صحیح تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ لیکن رسول اﷲﷺ کی تعلیم کے بعد نہ تو کوئی صیغہ تعلیم غیرمکمل رہا ہے۔ جس کی تکمیل کی غرض سے کسی دوسرے نبی کو بھیج دیا جائے اور نہ ہی آپ کی تعلیم میں تحریف واقع ہوئی ہے اور نہ قیامت تک ہوگی۔ جو کسی دوسرے نبی کو صحیح تعلیم کے لئے بھیجنے کی ضرورت ہو۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف کو تحریف سے قیامت تک محفوظ رکھنے کا اعلان فرمادیا ہے جو سورۃ حجر کی آیت ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ میں مذکور ہے۔ یعنی ہم نے ہی کلام مجید کو اتار ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں اور تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال کا مشاہدہ اس پر شاہد ہے کہ کلام الٰہی میں آج تک ایک حرکت کی تبدیلی بھی نہیں ہوئی۔ حروف وکلمات کی تبدیلی تو درکنار رہی، تو اب آپ غور فرماویں کہ آپﷺ کے بعد کسی نبی کے بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔
دلیل سوم
آپ کے بعد مستقل نبی کا نہ آنا تو فریق مخالف کے نزدیک بھی مسلم ہے۔ متنازعہ فیہ تو صرف نبی غیرمستقل کا آنا ہے۔ لہٰذا اس کے متعلق مرزائیوں سے چند امور دریافت طلب ہیں۔