پیش نظر کر دیا۔ جس کو دیکھ دیکھ کر آپ مقامی علامتیں بتانے لگے کہ فلاں دروازہ فلاں مقام میں ہے اور فلاں دروازہ فلاں مقام میں۔ (آپ تمام علامتیں بتاتے جاتے تھے) اور حضرت ابوبکرؓ اس کی تصدیق کرتے جاتے تھے۔ اس روز آپﷺ نے ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اے ابوبکرؓ! اﷲ نے بوجہ اس عظیم الشان واقعہ کی تصدیق کے آج سے تمہارا نام صدیق رکھا۔
الحاصل! اسلام میں معراج کا واقعہ گویا محک امتحان ہے جس نے اس کی تصدیق کی وہ دولت ایمانی سے مالا مال اور نور اسلام سے منور ہوا اور جس نے اس کا انکار کیا اور اس کے وقوع کو مستبعد سمجھا اس کی شقاوت ازلی کا پردہ چاک اور دائمی بدبختی کا ستارہ بلند ہوا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہوگی کہ سب جانتے تھے کہ رسول اﷲﷺ نے کبھی بیت المقدس کی شکل تک نہیں دیکھی اور پھر باوجودیکہ جو جو نشانیاں پوچھتے گئے آپ نے بلاکم وکاست سب بیان فرمادیں۔ قافلہ والوں کا حال بھی دریافت کرنے پر بالکل ٹھیک اور سچ بتادیا۔ لیکن آہ! پھر بھی منکروں نے دیگر معجزات کی طرح ہذا ساحر کذاب کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا۔
گو میں اپنے نقطۂ خیال سے مضمون ہذا کو بے نقاب کر چکا ہوں اور حقیقتاً بات بھی یہی ہے کہ خدا اور اس کے رسول کا کلام جب کسی مسلم کے کان میں پڑ جائے اس کو نہ تو کسی غیر کے کلام کی چاہت کا ولولہ ہی بے چین کرتا ہے اور نہ ہی اس کو یہ بات بہائے لیکن چونکہ طبیعتیں مختلف خواہش جدا جدا اور الگ الگ واقع ہوئی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ جن طبیعتوں کا زیادہ تر رجحان اقوال علماء اور کلام آئمہ پر ہے ان کی تفہیم کے لئے ذیل میں چند اقتباسات درج کئے جائیں۔ شاید کہ خدائے تعالیٰ ان کو نیک سمجھ عنایت کرے۔
معراج جسمانی کے اثبات میں علمائے متقدمین کے ارشادات
حضرت امام ابوحنیفہؒ کا مذہب
چنانچہ فقہ اکبر کی شرح میں لکھا ہے: ’’(وخبرالمعراج) اے بجسدہ المصطفیٰﷺ یقظۃ الیٰ السماء ثم الیٰ ماشاء اﷲ تعالیٰ فی المقامات العلی (حق) اے حدیثہ ثابت بطریق متعددۃ (فمن ردّہ) اے ذالک ولم یؤمن بمعنی ذالک الاثر (فہو مبتدع ضال) اے جامع بین الضلالۃ والبدعۃ (شرح فقہ اکبر ص۱۲۵)‘‘ یعنی رسول اﷲﷺ کو بیداری کی حالت میں مع آپ کے جسم کے آسمان تک پھر جہاں تک اﷲتعالیٰ نے چاہا بلند مقاموں تک معراج کا ہونا احادیث متعددہ سے ثابت ہے جس