سے زیادہ آتا ہے ماہوار ہے۔ یہ خرچ دوسری مدات میں سے دیا جاتا ہے۔ کیونکہ مریدوں کی طرف سے مجھے اجازت ہے کہ حسب ضرورت ایک مد سے دوسری مد میں روپیہ خرچ کر لیا جاوے جو بچت سال گزشتہ کی کبھی ہوتی ہے تو میں حسب ضرورت آیندہ سال اس کو خرچ کر دیتا ہوں۔ دینی ضرورت میں خرچ کیا جاتا ہے۔ میرے ذاتی خرچ سے اس خرچ کو تعلق نہیں ہے۔ مجھے کوئی حاجت نہیں کہ میں مریدوں کا روپیہ اپنے خرچ میں لاؤں میرا خرچ میری آمدنی ذاتی سے جو صرف زمینداری سے ہوتی ہے اور کسی قسم کی آمدنی نہیں ہے کم ہے۔ میں اپنی ذاتی آمدنی سے بھی مدات مذکورہ بالا میں خرچ کر دیتا ہوں۔ میری ذاتی آمدنی جس قدر مجھے باقی بعد از منہائی خرچ بچتی ہے۔ وہ میں کسی دینی خدمت میں خرچ کر دیتا ہوں۔ تجارت وغیرہ کسی کام میں جہاں سے آمدنی ہو خرچ نہیں کرتا اور کچھ بیان نہیں کیا۔ ۵؍اگست ۱۸۹۸ئ، (دستخط حاکم)
دستخط مرزاغلام احمد بقلم خود
مولوی نورالدین صاحب کا بیان
نقل بیان حکیم نورالدین روبروئے تاج الدین صاحب تحصیلدار
باختیار اسسٹنٹ کلکٹر درجہ دوم پرگنہ بٹالہ
مشمولہ مسل عدالت مال باجلاس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر صاحب کلکٹر بہادر ضلع گورداسپور
مرجوعہ ۲۰؍جون ۱۸۹۸ئ فیصلہ ۱۳؍ستمبر ۱۸۹۸ئ نمبربستہ نمبر مقدمہ۵۵
تعداد ٹکس مشخصہ: ایک سو اٹھاسی روپے آٹھ آنے تعداد ٹکس بوجہ فیصلہ عذرداری تعداد ٹکس بعد فیصلہ اپیل (اگر ہوا)
معاف شد
مثل عذرداری انکم ٹیکس مسمی مرزاغلام احمد ولد غلام مرتضیٰ ذات مغل ساکن قادیان
تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور
بیان حکیم نورالدین ولد غلام رسول ذات قریشی فاروقی ساکن بھیرہ ضلع شاہپور باقرار صالح
۵سال سے میں مرزاصاحب کی خدمت میں ہوں۔ مرزاصاحب کا اپنا گزارہ باغ اور۱؎ زمین سے ہے۔ لوگ جو باہر سے بھیجتے ہیں وہ روپیہ مرزاصاحب اپنے ذاتی خرچ میں نہیں لاتے جو روپیہ مرزاصاحب کو علاوہ اپنی آمدنی کے باہر سے آتا ہے۔ اس کو وہ پانچ مدوں میں خرچ کرتے ہیں۔
۱؎ وہی باغ جو رہن ہوچکا ہے۔ پھر اس کی آمدنی میں مرزاقادیانی کو کیا دخل؟