آپ فرمائیں گے کہ ہرچیز کی کشش اس سمت کو ہوتی ہے جہاں اس کی اصل ہو اور جسم انسانی کی اصل زمین ہے۔ اس لئے وہ اس کو اپنی طرف جذب کر لیتی ہے اور اوپر جانے نہیں دیتی۔
جواب… زمین کی اصل بھی آسمان ہے۔ زمین اور اس کے ملحقات کو بواسطہ کائنات کھینچ رہی ہیں۔ سبع سموٰت کے تو آپ بھی قائل ہوں گے جن کا وسط فلک چہارم ہے۔ جس کے دونوں طرف تین تین فلک ہیں اور چہارم ان کے بیچ میں ہے۔ چھ افلاک میں جس قدر سیارے ہیں۔ سورج ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ دن بدن اس کی طرف کھنچے جارہے ہیں اور قریب ہورہے ہیں۔ ان ہی سیاروں میں زمین بھی ہے۔ رفتہ رفتہ اس قدر نزدیک آجائے گی کہ سوا نیزے پر سورج ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ تمام اجسام جن کی عظمت زمین سے بھی زیادہ ہے۔ چوتھے آسمان کی طرف کھچے جارہے ہیں تو پھر انسان بے مقدار کا کیا کہنا۔
چونکہ ہم سب زمین کے پاس ہیں۔ اس لئے ہم پر اس کی کشش قوی ہے۔ لیکن فی الحقیقت جسم انسان دوجزو سے مرکب ہے۔ جسم اور روح، جسم کی کشش نیچے کو اور روح کی کشش اوپر کو ہے۔ پھر ان دونوں میں سے جس کی قوت زیادہ ہوگی۔ دوسری کو کھینچ لے گا۔ چونکہ ہم میں صرف ایک ہی جزو (روح) لطیف ہے۔ اس کے مقابل دو کثیف ہیں۔ ایک مادری دوسرے پدری۔ اس لئے ہم پر جذب زمین غالب ہے اور جذب علوی کا زور نہیں چل سکتا۔ لیکن اگر ان میں سے ایک کی کثافت کم ہو جائے یا دونوں لطیف ہوں تب ملائکہ کی طرف پرداز فلک سہل ہو جائے۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف مادری جزو کثیف تھی۔ لیکن پدری نہیں اس لئے لطافت میں کمال نہ ہونے کے باعث چرخ چہارم تک جاسکے۔
لطافت جسم رسول
آنحضرتﷺ کے ہر دو اجزاء مادری وپدری بحکم ایزومتعال لطیف ہوگئے تھے۔ اس لئے آپ کی پرواز بروز معراج فلک الافلاک تک پہنچ گئی۔ حضور علیہ السلام کی لطافت جسمی بدرجۂ غایت پہنچی ہوئی تھی۔ جس پر حسب ذیل شواہد موجود ہیں۔
۱… بطن مادر میں جسم کا کوئی بوجھ نہ تھا۔ ۹؍ماہ گزر گئے۔ آثار حمل نمودار نہ تھے۔ شکم کی حالت وہی معمولی رہی۔
۲… وقت تولد دردزہ ندارد! کیونکہ آپ کا تولد روح کی طرح ہوا تھا۔
۳… جسم کی لطافت اس درجہ کو پہنچی ہوئی تھی کہ آپ جو غذا کھاتے کثیف نہ ہونے پاتی۔ بول وبراز کہیں نظر نہ آئے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ کا بول وبراز زمین نگل لیتی تھی۔ حقیقت