حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک عریضہ اور اس کا جواب
M!
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!
بخدمت جناب حضور حضرت اقدس خلیفۃ اﷲ ورسول اﷲ مسیح موعود مہدی مسعود علیہ الصلوٰ والسلام!
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، … عرض خاکسار چنیں است کہ بیان مسئلہ ذیل مرحمت فرمودہ برائے من عنایت نمودہ شودوآں این است کہ بعضے میگویند کہ رسول خاص است ونبی عام است پس ہر رسول نبی است وہر نبی رسول نیست یعنی رسول افضل است از نبی وبعضے میگویند کہ رسول ونبی یک است۔ غرض نزول مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدام صحیح ومنظور است۔ یہ خاکسار غلام محمد افغان!
جواب
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، … واضح باد کہ مارا باقوال دیگراں ہیچ تعلق نیست۔ آنچہ از قرآن شریف مستنبط میشود ہمین است کہ رسول آن باشد کہ خدمت رسالت وپیغام رسانی از خداتعالیٰ بدوسپرد کردہ شود۔ ونبی آنست کہ از خدا خبرہائے غیب یا بدوبمردم رساند۔ باقی ناحق تکلیف کردہ اندوچیزے نیست! والسلام مرزاغلام احمد عفی عنہ!
(الحکم نمبر۲۵ ج۱۲، مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۸ء ص۱)
دیکھئے! اس خط میں مرزاقادیانی نے قرآن سے استنباط پیش کیا ہے اور نبی ورسول کے اصطلاحی معنے بتلائے ہیں۔ لاہوری شاید ان کو بھی لغوی بنادیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مرزاقادیانی کے مرید خطوں میں مرزاقادیانی کو رسول اﷲ نبی اﷲ لکھتے تھے اور وہ خطوط اخباروں میں چھپتے تھے اور مرزاقادیانی نے جواب میں یہ بھی نہیں لکھا کہ تم نے مجھ کو رسول اﷲ کیوں لکھا۔ میں کوئی رسول اﷲ ہوں؟۔ تم نے نبی کریم کی توہین کیوں کی اور ساتھ ہی یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ مسٹر محمد علی امیر جماعت لاہور اور ان کے ساتھی اس وقت کہاں تھے؟۔ کیا وہ ان اخباروں کو نہیں پڑھا کرتے تھے اور اگر پڑھا کرتے تھے تو اس وقت کوئی اس کی تردید کی اور مرزاقادیانی سے کیوں نہ کہا کہ حضرت اب تو مرید لوگ خطوں میں رسول اﷲ لکھنے لگ گئے ہیں اور ان لفظوں سے اسلام میں فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہے۔ آج مرزامحمود کے مقابلہ پر تو یہ فرض ادا ہورہا ہے۔ کیا مرزاقادیانی کے مقابلہ پر آپ کا یہ فرض نہ تھا۔ باقی ہم ناظرین پر چھوڑتے ہیں وہ خود پڑھ کر فیصلہ کریں۔